قرآنی بیانیے میں حضرت محمد ﷺ کا تذکرہ
از: ابوفہد ندوی، نئی دہلی یہ محض اتفاق نہیں کہ اللہ نے خود کے لیے “رب العالمین”، نبی ﷺ کے لیے “رحمۃ للعالمین” اور قرآن کے لیے “ذکر للعالمین” کی تراکیب استعمال کی ہیں۔ تینوں جگہ “العالمین” کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ ’’للعالمین‘‘ کا لفظ دیگر چیزوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے، جیسے بیت اللہ کو ’’ھدی للعالمین‘‘ کہا گیا ہے اور نوح علیہ السلام کی کشتی اور اس واقعے کو ’’آیۃ للعالمین‘‘۔ مگر بیانیے کا فرق بہرحال موجود ہے اور ’’العالمین‘‘ کی نسبت ہر جگہ یکساں معنویت کی حامل نہیں۔اللہ نے اپنے لیے “رب العالمین” کا خطاب یا تمغۂ امتیاز پسند فرمایا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے لیے “رحمۃ للعالمین” کا خطاب یا تمغۂ امتیاز۔ پھر اپنے اس امتیاز کو قرآن کی سب سے اہم اور سب سے عظیم سورہ، سورۂ فاتحہ کی پہلی ہی آیت میں بیان فرمایا اور وہ بھی تعریفی و توصیفی بیان کے پس منظر میں۔ قرآن کی توقیفی ترتیب میں یہی جملہ “الحمد للہ رب العالمین” فاتحۃ الکتاب ہے، یعنی سرنامۂ قرآن، جیسے دیوان کی پہلی غزل کا مطلع ہوتا ہے۔ اللہ نے سورۂ انبیاء میں نبی ﷺ کے خطاب و امتیاز کے بارے میں فرمایا:وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الأنبیاء: ۱۰۷)۔اور سورۂ توبہ میں نبی ﷺ کی اسی صفتِ رحمت کو اس طرح مؤکد کیا ہے:قَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُولٌ۬ مِّنۡ أَنفُسِكُمۡ عَزِيزٌ عَلَيۡهِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِيصٌ عَلَيۡكُمۡ بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ رَءُوفٌ۬ رَّحِيمٌ۬(التوبۃ: ۱۲۸)۔’’اے لوگو! یہ رسول جو تمہارے درمیان آیا ہے، یہ تمہاری اپنی ہی قوم سے ہے۔ تمہاری تکالیف اس پر نہایت شاق گزرتی ہیں، یہ تمہاری ہدایت کا طالب اور حریص ہے اور اہلِ ایمان کے لیے بطور خاص انتہائی مشفق اور مہربان ہے۔‘‘اور قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا:إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (ص: ۸۷)۔ قرآن کے لیے اسی نوعیت کے جملے مزید چار پانچ مقامات پر بھی وارد ہوئے ہیں۔ یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ان سب مقامات پر ’’مؤمنین‘‘ یا ’’مسلمین‘‘ کا لفظ نہیں بلکہ ’’العالمین‘‘ کا لفظ ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا…
Read more