تحریر: مولانا عامرعثمانی
ماہنامہ تجلی، کالم:کھرے کھوٹے، مارچ، 1960ء
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ! خدا انھیں اخروی نعمتوں سے مالامال کرے ! تمام منصف مزاج اور سلامت رَوعلمائےحق کے نزدیک بہت بڑے امام وشیخ ہیں،ان کا تقویٰ،حب ِ دین،علم وتبحر،ذہن وذکاء،حافظہ،مطالعہ واستحضار،فکری استقلال، انتقالِ ذہنی، سوزوگداز،عزیمت وجامعیت، اخلاص،زبان وقلم، دست وبازو کونسی چیز ہے جو بارگاہِ بصیرت سے خراجِ تحسین وصول نہیں کرتی، وہ جب قرآن وسنت سےہٹے ہوئے مزعومات و دعاوی کا رد کرنے پر آتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتاہے جیسے دلیل وبرہان کا ایک طوفان اُبلتا، امنڈتا،گرجتا چلا آرہا ہے جس کی گھن گرج سے پہاڑوں کے جگر چاک اور وادیوں کےزہرے آب ہیں، فریقِ مخالف کے فلک بوس استدلالی قلعے خس و خاشاک کی طرح اس کی کف دردہاں موجوں میں بہتے چلے جاتے ہیں،کسی کی مجال نہیں جو اس کی راہ رو کے، اس سے آنکھیں ملائے، اس پر بند باند ھے۔
یا پھر ایک ایسی برقی مشین کا تصور آتا ہے جس میں آیات و احادیث اور علوم عقلی ونقلی کے دلائل و براہین خانہ بخانہ رکھ دئیے گئے ہوں اور بٹن دباتے ہی یہ بے خطا تدریج و ترتیب کے ساتھ باہر نکلتے چلے آرہے ہوں،یہی تو وہ صانعِ حقیقی کا نمونۂ صناعی تھا جس نے دیو قامت فلاسفہ ومناطقہ اور ائمۂ باطل کے رعب داب کے بخیے اُدھیڑ کے رکھ دیئے تھے، جس نے علومِ یونانی کے داخل کر دہ زہر کو فکرِ اسلامی کی رگ رگ سے نچوڑ کر میدانِ فلسفہ وکلام کے اُن سر افرازوں کے منھ پردے مارا تھا جن کی مرعوبیت اور دہشت اچھے اچھے علماء دین کے دل و دماغ پر کابوس بن کر سوار ہوگئی تھی، جس نے ایک ایک ضال و مُضل گروہ کے حلق سے زبانیں کھینچ لی تھیں اور جس کے علم وفراست کا ہر ناوک رفاعیت، قدریت، شیعیت، مشائیت، غیر اسلامی صوفیت اور اسی طرح کے دوسرے من گھڑت اِزموں کے عین قلب میں جا کے تر ازو ہوا تھا، تم تاریخ اُٹھا کر دیکھو تو حیران رہ جاؤ کہ جس دور میں ابن تیمیہؒ نے جہاد ِ عظیم کا زَرّیں کارنامہ انجام دیا اُس وقت مسلمان کن ہولناک اور تباہ کن ظاہری وباطنی آفتوںمیں گرفتار تھے، ایک طرف سیاسی و تمدنی انحطاط و انتشار زوروں پر، دوسری طرف بدعات وخرافات،جمود و تعطل اور زَندقہ وتفلسف کی فصلِ بہار،غیر اسلامی کلام وتصوف اورفلسفہ ومنطق کا دیو اسلامِ خالص کےجسد ِمظلوم میں گہرے پنجے گاڑے ہوئے تھا،امامت ِ ذہنی کی باگ پیچ در پیچ علومِ عقلیہ کے ہاتھ میں تھی یا پھر گمراہ کن تصوف کے، اسلامی اصطلا حیں علومِ غالبہ کے بوجھ تلے دم توڑ رہی تھیں، امام غزالیؒ جتنی کچھ اصلاح کر چکے تھے اس کے آثار و علائم فنا ہوتے جارہے تھے، علماء کی کمی نہیں تھی مگر ان میں وہ جرأت وعزیمت،وہ ہمہ جہتی تبحر،وہ علم وذکاء، وہ قوتِ استدلال،وہ استحضار، وہ مردانگی اور سب سے بڑھ کر وہ مجاہدانہ تب وتاب نہیں تھی جو ز وال وگمراہی کے دبیز کہرے کو چھانٹ سکتی،دیو باطل کا منہ توڑ جواب دینا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنا ان کی دسترس سے باہر تھا، یکایک ابن تیمیہ کےقالب میں اللہ کا دستِ قدرت جنبش میں آیا اور شیاطین کے لشکر میں کھلبلی مچتی چلی گئی،اس مردِ مجاہد نے چو مکھی جنگ لڑی، دست بدست لڑی، ایسی لڑی کہ دیو باطل کے چھکے چھوٹ گئے، کیا فلسفہ، کیا منطق، کیا ریاضی،کیا علم النفس، کیا طبعیات،کیا علم کلام، کیا نصرانیت، کیا شیعیت؛ کوئی بھی محاذ ایسا نہیں تھا جہاں اس جانباز نے مردانگی کے جوہر نہ دکھائے ہوں،ایسے ویسے جو ہر نہیں، بازی جیتی، ہر محاذ پر جیتی، اکیلا شیر سارے حریف پہلوانوں کو بیچ میدان کے للکارتا تھا اور پھر شام کا سورج یا صبح کا ستارہ میدانِ کارزار میں باطل نظریات و دعاوی کے بے شمار لاشے خاک و خون میں غلطاں دیکھتا تھا اورعین وسط میں ابن تیمیہؒ کی عظمت وشہرت کا عَلم گڑا ہوا نظرآتا تھا۔
کوئی شک نہیں ان کے زمانے میں بھی اور آج بھی بہت لوگ ان سے عناد رکھتے ہیں انہیں برا کہتے ہیں اور ان کی رفعتِ شان سے صاف انکار کرتے ہیں،ان کا جائزہ لیجئے تویہ تین طرح کے لوگ ہوں گے؛ ایک وہ جنہوں نے شیخ کے کارناموں اورفکر می مجاہدوں اور گوناگوں خصوصیتوں کا علم ہی حاصل نہیں کیا، بس ان کا کوئی قول یا عقیدہ ایسا دیکھ یا سن لیا جو ان کے اپنے خیال سے متصادم تھا اور بکھر گئے،دوسرے وہ جن کے علم پر نفسانیت غالب آگئی، تیسرےوہ جن کے ذہن ومزاج کو تقلید ِ جامد یا شریعتِ قبوری اور دین ِمردہ پرستی نے فاسد کر دیا،ان تینوں قسموں کو چھوڑ کر ہر صاحب ِعلم شیخ کو عظیم مانتا ہے اور چاہے ان کے بعض تفردات سے متفق نہ ہو،لیکن اہلِ بدعت وضلال کی طرح ان کےمنہ پر سیاہی ملنے کی ناپاک کوشش نہیں کرتا، بے شک وہ عظیم تھے مگر نبی نہ تھے،ان سے فکر ونظر اورا قدام و عمل میں غلطی ہوسکتی تھی،ان کا ہر فرمودہ واجب القبول نہیں، انھیں غیر معصوم ہی سمجھتے ہوئے ہم ان کی منقبت کے گیت گاتے ہیں اور ان کی کسی رائے میں خامی ثابت ہو جائے تو اس سے ہماری عقیدت مندیاں شَمہ برابر مضمحل نہیں ہوسکتیں۔
پیشکش:معاویہ محب اللہ