ہندوستان میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمہ اللہ نے فکر امارت اور نظام قضاء کے نظریہ کو بڑی قوت کے ساتھ پیش کیا، اس پر آنے والے شبہات و اعتراضات کے جوابات دیے اور اس خاکہ میں رنگ بھرا۔
آج ملک میں قانون شریعت کے تحفظ کا سب سے اہم ذریعہ نظام قضاء ہے، اس کی توسیع اور تحفظ ہمارا دینی فریضہ ہے۔ اللہ جزائے خیر دے فقیہ النفس حضرت مولانا قاضی مجاہد السلام قاسمی رحمہ اللہ کو؛ کہ انہوں نے اسلام کے عدالتی نظام کی وضاحت، اس کے نفاذ کے طریقے اور مطلوبہ افرادی طاقت فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ابھی ملک میں کم و بیش 300 دارالقضاء قائم ہیں، ان میں سے سو کے قریب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت کام کر رہے ہیں، صرف ان میں ہر سال 5000 سے زائد مقدمات حل کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ سینکڑوں نزاعات کو گفت و شنید اور کونسلنگ کے ذریعہ حل کر دیا جاتا ہے۔ ابھی ملک کی عدالتوں میں 25000 سے کچھ زائد ججوں کی اسامیاں ہیں، اندازہ لگائیں کہ 140 کڑور کی آبادی میں پچیس ہزار ججوں سے کیاہی ہوپائے گا۔ چند سالوں پیشتر یہ اعداد و شمار پیش کیے گئے تھے کہ عدالتیں اگر زیر دوراں مقدمات پر اکتفا کریں، نئے مقدمات نہ لیں، تو زیر دوراں مقدمات کو مکمل کرنے کےلیے ساڑھے تین سو سال درکار ہوں گے۔
دارالقضاء ملک میں کوئی متبادل عدالتی نظام نہیں ہے، ہاں یہ خارج عدالت نزاعات کے تصفیہ کی کامیاب کوشش ہے، 2014 میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی اس بابت موجود ہے۔ تربیت قضاء کا کورس المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں شروع کیا جارہا ہے، ایک جامع نصاب تیار کیا گیا ہے اور کونسلنگ کی جدید مہارتیں بھی شامل رکھی گئی ہیں۔اس افتتاحی اجلاس کی صدارت معروف فقیہ حضرت مولانا عتیق احمد بستوی(کنوینر شعبہ دارالقضاء بورڈ) نے کی، صدر بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی نگرانی و سرپرستی رہی، اس موقع پر حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب، جناب قاضی اشفاق صاحب آکولہ، جناب قاضی تبریز عالم صاحب اور جناب ظفر مسعود صاحب شریک بزم رہے اور طلبہ کو مخاطب کیا۔