زندگی میں اعتدال نہ صرف پسندیدہ عمل ہے ،بلکہ حکم الٰہی کی بجاآوری میں اور سیرت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اتباع میں بڑا دخل ہے ،اسی لئے اللہ تعالیٰ کے جتنے احکام اور عباد ات ہیں اگر ہم غور کریں تو ان میں سب سے زیادہ جو اہم بات ہے وہ اعتدال و توازن ہے تاکہ انسان افراط و تفریط کا شکار نہ ہو ،نہ اللّٰہ کے حکم سے اعراض لازم آئے اور نہ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ،ذیل میں ہم اس کے چند نقوش اور مثالیں پیش کر تے ہیں جن میں ہمیں خاص طور پر یہ پہلو نظر آئے گا
نماز
عبادت میں صرف نماز کو دیکھئے ،بدنی عبادت میں اس کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ،قرب الٰہی کے علاوہ برائی بے حیائی منکرات سے حفاظت اور دل کو سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے ،مگر اللّٰہ تعالیٰ نے پورے دن میں صرف چار مرتبہ نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ،طلوع شمش سے زوال تک کوئی نماز نہیں فرض کی گئی کیوں ؟ اس لئے کہ ضرورت انسانی متاثر نہ ہو ،دقت و دشواری نہ ہو ،اسی طرح رات میں عشاء کی نماز کے بعد تقریباً سات آٹھ گھنٹے کے اندر کوئی نماز فرض نہیں کی گئی تاکہ جسمانی حق نیند تلف نہ ہو ،رات میں تہجد دو چار رکعات پڑھنا گرچہ افضل ہے، لیکن پوری رات عبادت کرنا فرض نہیں ،تاکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں اعتدال برقرار رہے ،کسی کے ساتھ حق تلفی نہ ہو
حقوق والدین
ماں باپ کا حق اولاد پر بہت زیادہ ہے ،اللہ کے بعد قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ( وبالوالدین احساناً) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو) بلکہ نفلی حج وعمرہ پر والدین کی خدمت کو ترجیح دی گئی ہے ،چنانچہ حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ نے والدہ کی خدمت کو حج وعمرہ پر ترجیح دی،اور حج وعمرہ کے لیے نہیں گئے، لیکن اگر ماں باپ اولاد کو نماز سے منع کرے تو ان کی اطاعت ضروری نہیں ،کیوں ؟ اس لئے کہ والدین کی اطاعت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آئے یہ جائز نہیں بلکہ ایسے موقع پر اللہ کے حکم کو مقدم کرنا ضروری ہے ( لاطاعۃ فی معصیۃ الخالق) اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی اور کی اطاعت جائز نہیں)
الغرض جس طرح عبادت میں درجہ بندی کا لحاظ ضروری ہے ،فرض کو سنت پر ،سنت کو نفل پر تقدم حاصل ہے ،اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا چاہیے کہ کون عمل فرض ہے کون عمل سنت ہے ؟جس کے کرنے پر ثواب ہے ،اور نہ ادا کرنے پر گناہ نہیں ،بیوی بچوں کی کفالت ،اس کی تعلیم و تربیت فرض ہے ،عمرہ سنت ہے ،اب اگر کسی کے پاس اتنی رقم ہے جس سے وہ اپنے بچوں کو علم مفید دلاسکتا ہے ،اس کے ساتھ عمرہ نہیں کرسکتا تو اس پر ضروری ہے کہ عمرہ فی الحال ملتوی کر دے ,بچوں کی تعلیم و تربیت پر روپیہ خرچ کرے ،ورنہ وہ گنہگار ہو گا ،عنداللہ اس کا مواخذہ ہوگا افسوس ہوتا ہے بعض لوگوں پر جو غیر ضروری کاموں میں روپے حد سے زیادہ خرچ کرتے ہیں ،فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں ،اعتدال کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں مثلاً شادی کے رسم میں قرض لیکر کام کر تے ،بعض سودی قرض لینے میں بھی دریغ نہیں کرتے،اور یہ خیال کرتے کہ اگر ہم نہیں کریں گے تو رشتے دار سماج کے لوگ کیا کہیں گے ،اس کا ہم بہت خیال کرتے ،لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو نگے، سنت نبوی کی خلاف ورزی لازم آئے گی
،بھائیو! اس وقت عقلمند سمجھدار وہ شخص ہے جو انسانی ضروریات کی ادائیگی میں ترجیح اور اعتدال کے پہلو کا لحاظ کرتا ہے ،اولاد کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لیتا ہے ،وقت کے تقاضے کے تحت ایک کام کو دوسرے کام پر ترجیح دیتا ہے ،اللہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف نہیں کرتا ہے ،چاہے رشتے دار اور سماج خوش ہوں یا نہ ہوں،اپنے قول وعمل سے کسی کو ٹھیس اور تکلیف نہیں پہنچاتا ہے ،حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اعتدال کو ترجیح دیتا ہے اور ایسا شخص ہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہے لیکن آج افسوس ان لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے جو ضرورت اور حقوق کی ادائیگی میں اپنی مالی حیثیت کا خیال نہیں کرتا ،وقت کے تقاضے کے اعتبار سے ترجیح کے اصول کو نہیں برتتا ،اپنے سے زیادہ پیسے والوں کے معیار کو اپنا معیار تصور کرلیتا ہے ،تو ایسا شخص ہمیشہ خسارہ اور زہنی انتشار میں مبتلا رہتا ہے ،آپ ذرا غور کریں کہ زکوٰۃ تمام مسلمان پر فرض کیوں نہیں کی گئی ہے ؟ نصاب کے برابر مال کا ہونا ،ضرورت اصلیہ سے فاضل ہونا یہ بھی شرط ہے ،اگر صاحب نصاب نہیں تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ، جو صاحب نصاب ہو تا تو ڈھائ فیصد ہی زکوٰۃ کیوں واجب ہوتی ،ہچاس فیصد نکالنا ضروری کیوں نہیں ،؟ یہاں بھی آپ غور کریں تو اللہ تعالیٰ نے صاحب نصاب کی ضرورت کا لحاظ کیا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ مسلمان آپنا پورا مال زکوٰۃ کے طور پر خرچ کردے اور اپنی ضرورت کی بجاآوری کے لیے دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلا ہے ،اس میں ذلت ورسوائی ہے ،اللہ تعالیٰ کسی مسلمان کو ذلت ورسوائی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا ،اسی لئے ایک صحابی حضرت عمران بن بشیر رضی اللہ اپنا پورا مال یا آدھا ،تہائ مال صدقہ کرنا چاہتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا تاکہ وہ دوسرے کے دست نگر نہ بنیے ،اسیطرح اللّٰہ تعالیٰ نے دنیاوی امور کی ادائیگی میں اعتدال اور ترجیح کے اصول کا لحاظ ضروری ہے: