کئی مرتبہ لوگوں کی طرف سے شرارتیں ہوئیں، یا کسی کی طرف سے کوئی بات ایسی نکلی جو آپ ﷺ کی شان کے خلاف ہو، جب صحابۂ کرام کو پتا چلا، حضرت عمرؓ، حضرت خالد بن ولید ، کئی قصے ان بزرگوں کے مشہور ہیں کہ فوراً عرض کیا کہ اللہ کے رسول! آپ فرمائیں تو ہم ان کے ساتھ یہ سلوک کریں، آپ نے منع فرمایا، اللہ پاک نے فرمایا *”إِنَّكَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِيمٍ“* (قلم :۴) آپ اخلاق کے بالکل اوپر کے معیار پر ہیں، آپ کے برابر اخلاق کسی کے نہیں ہو سکتے، اور اسی لئے آپ نے فرمایا: *”إنما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق“* (مجمع الزوائد:۱۸/۹،باب ماجاء فی حسن خلقه) میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق کے جو اعلیٰ کردار اور اعلیٰ کریکٹر ہیں ان کو میں مکمل کروں، دوسرے انبیاء کرام بھی اخلاق کو ذکر فرمار ہے ہیں، لیکن آپ ﷺ کے ذریعہ اخلاق کی تکمیل فرمائی۔
جناب نبی اکرم ﷺ کے یہ اخلاق تھے کہ آپ کے پاس آکر یہودیوں نے شرارت کی، *السام عليك* کہا ، سام کا معنی ہلاکت اور بربادی، سلام کے بجائے سام کہا، آپ ﷺ نے ایک ہی جملہ فرما دیا: *وعلیکم*، حضرت عائشہ نے کہا: اللہ کے نبی ﷺ یہ آپ کے لئے برے جملے استعمال کر رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ میں نے بھی تو ایک جملہ کہہ دیا ہے، (بخاری:کتاب الأدب، باب الرفق في الأمر كله) تم نے مجھے ہلاکت کی دعا دی، میں نے *و علیکم* کہا، سلام کرتے تو تمہیں سلام ملتی، علیکم کا معنی تم پر، تو تمہارے او پر وہی چیز ہو جو تم نے مجھے کہی، اتنے پر آپ ﷺ نے صبر کیا۔
مال غنیمت تقسیم کر رہے ہیں، ایک صاحب آکر ز بر دستی یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے مال غنیمت میں سے حصہ دو جو اللہ نے آپ کو دیا، جبکہ آپ ﷺ مشغول تھے بانٹنے میں، چادر سے کھینچا، پھر بھی ہنستے ہنستے آپ ﷺ نے اس کو دے دیا ، (بخاری:کتاب فرض الخمس،باب ما كان النبي ﷺ يعطى المؤلفة قلوبهم وغيرهم من الخمس) یہ اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ کیریکٹر سے آپ ﷺ نے اللہ کے بندوں کے ساتھ معاملہ فرمایا، اپنی ذات پر آنے والی کوئی بھی چیز تھی، آپ ﷺ نے اس کو برداشت کر لیا، لیکن صحابۂ کرام نے آپ ﷺ کا دفاع فرمایا، قرآن کریم کی آیتوں پر صحابۂ کرام نے عمل فرمایا۔
📚 *(مواعظ دار العلوم ماٹلی:جلد:٢،ص:٢٢٢-٢٢٤، افادات: شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا مفتی اقبال صاحب ٹنکاروی حفظہ اللہ)*
____________________