ایک مجلس میں ڈاکٹر (محمود غازی رح) صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی بہتر یادداشت کا راز کیا ہے؟ کیا کوئی نسخہ یا وظیفہ ایسا ہے جو اس چیز کے حصول میں معین ہو؟ تو اس پر، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، فرمایا کہ مجھے کسی بزرگ نے یہ دعا بتائی تهى: “اللهم إني أسألك علما لایُنسی”، یہ بھی فرمایا کہ: آدمی کو چاہیے کہ جب ایک کتاب کو شروع کرے تو اسے پورا پڑھنے کی کوشش کرے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی اپنی فکر اور توانائیوں کا محور بنا لیتا ہے، وہ چیز اسے بآسانی یا درہنے لگ جاتی ہے۔ ایک تاجر کو مختلف اشیا کے نرخ اور ان میں اتار چڑ چڑھاؤ اس طرح یاد ہوتا ہے کہ دوسرے آدمی کو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بار یک تفصیلات اسے کیسے یاد رہ جاتی ہیں۔
قوت حافظہ اور یادداشت کے یقینا بہت سے اسباب بھی ہیں۔ ان میں طبی اسباب بھی ہوں گے، ہموم و افکار کی کمی بھی اس کا ایک ذریعہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک پیدائشی اور قدرتی ملکہ بھی ہے جسے اللہ تعالی اپنے حکیمانہ نظام کے تحت تقسیم فرماتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب آدمی علم ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے تو اسے علم سے متعلق باتیں زیادہ یاد رہنے لگ جاتی ہیں۔ جس شخصیت میں یادداشت کا یہ غیر معمولی وصف ہو، اس سے یہ سوال ضرور ہوتا ہے کہ یاد داشت مضبوط کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ امام بخاری سے بھی یہ سوال کیا گیا کہ کیا حافظے کی کوئی دوائی ہے؟ پہلے تو امام بخاری نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں، اس لیے کہ اس طرح کی ظاہری دوائی واقعی انہیں معلوم نہیں ہوگی اور نہ ہی امام بخاری کا بے مثال حافظ ایسے کسی نسخہ کا مرہون منت تھا۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد امام بخاری نے فرمایا: “لا أعلم شيئا أنفع للحفظ من نهمة الرجل ومدوامة النظر”، یعنی یادداشت کے لیے دو کاموں سے زیادہ کوئی چیز میرے علم کے مطابق مفید نہیں ہے۔ ایک آدمی کی علم کے لیے بھوک اور اس کا شوق ولگن اور دوسرے کثرت مطالعہ۔ ( لامع الدراری از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ۱/ ۳۹)
مآخذ از : مقالاتِ زاہد (مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی، کچھ یادیں کچھ باتیں) مفتی محمد زاہد صاحب حفظہ اللہ
شاد محمد شاد