جواب

انسانی جسم ایک عظیم نعمت ہے ، جس کی تکریم و تعظیم ہر ایک انسان کے لیے ضروری ہے  ، اور  اسلام میں بھی انسانوں کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی تحقیر و تذلیل سے منع کیا گیا ہے ،  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا (الإسراء: 70)

‘‘ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انھیں فوقیت دی ۔’’

     اور  یہ حکم عام ہے ، زندہ  اور مردہ دونوں کے لیے ہے ، جس طرح زندہ انسانوں کی تعظیم ضروری ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد بھی انسانی لاش کا احترام کرنا ضروری ہے ، اس لئے احادیث نبویہ میں بھی بے حرمتی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ،  ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :

كَسْرُ عَظْمِ المَیتِ كَكَسْرِهِ حَیا (ابوداود: 3207 ، ابن ماجہ: 1616)

‘‘ میت کی ہڈی توڑنا، اس کی زندہ ہونے کی حالت میں ہڈی توڑنے کے مثل ہے ۔’’

   اس لیے عام حکم تو یہی ہے انسانی لاش کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور  چیڑ پھاڑ جائز نہیں ہے ، اور اکثر ہندوستان کے علماء کی رائے بھی یہی ہے ، گرچہ  لاش لاوارث ہی کیوں نہ ہو، 

     لیکن  آج کل میڈیکل میں طلباء کو انسانی جسم کے اعضاء ، ہڈیوں کی بناوٹ ، طبیعی ہیئت سے آگاہ کرانے کے لیے انسانی لاش کا استعمال کیا جاتا ہے ، جس کا مقصد طلبہ کو انسانی جسم کے اعضاء ، ہڈیوں اور احشا (Viscera)کی بناوٹ ، طبیعی ہیئت اور مرضی صورتوں سے واقف کرانا ہوتا ہے ، اور  طلبۂ طب کو آئندہ مریضوں کے علاج معالجے کی اہم خدمات انجام دینی ہوتی ہے ،  ہزاروں زندگیوں کو بچانے میں ڈاکٹروں کا اہم رول ہوتا ہے، اس لئے  آخر میں شدید ضرورت کے تحت انسانی لاوارث لاش کا Dissectionکروایا جا سکتا ہے ، کیونکہ انسانی زندگی کی حفاظت کی اہمیت انسانی شرافت و حرمت سے بڑھ کر ہے ، چوں کہ یہاں دو پہلو کا اجتماع ہے ،مفسدہ اور منفعت ،عام طور پر مفسدہ کو منفعت پر ترجیح حاصل ہوتی ہے ، لیکن جب منفعت کا پہلو انفع ہو تو اس کو مفسدہ پر ترجیح حاصل ہوتی ہے جیسا کہ علامہ ابن نجیم نے لکھا ہے ،وقد تراویح المصلحۃ لغلبتھا علی المفسدۃ (؛ الاشباہ و النظائر 325/1) یہاں مفسدہ کا پہلو اعضاء کی بے حرمتی ہے ،اور منفعت کا پہلو بہت سے زندہ انسان کے علاج ومعالجہ کا تجربہ حاصل کرنا ،اور لوگوں کی صحت کی حفاظت کرنا ہے ،اس لئے ضرورت کی بنا پر منفعت کے پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی گنجائش ہوگی، 

جہاں تک  بات ڈونیٹ اور وصیت کرنے کی ہے یعنی اگر کوئی شخص وصیت کرجائے کہ اپنے جسم یا کسی عضو یا جزو کو وقف کرنے کی تو ایسا کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے جسم کا مالک نہیں ہے، اس کا پورا جسم مع تمام اعضاء و اجزا اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، اورانسان کے پاس بطور امانت ہے، فتح الباری (کتاب الایمان والنذور، باب من حلف بملةٍ سوی الإسلام ۱۱:۶۵۷ مطبوعہ دارالسلام الریاض) میں ہے: ”ویوٴخذ منہ“ ان جنایة الإنسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ في الإثم لأن نفسہ لیست ملکا لہ مطلقًا، بل ہي للہ تعالی فلا یتصرف فیہا إلا بما أذن لہ فیہ“

   اور ہبہ یا وصیت  کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیز انسان انسان کی ملکیت میں ہو ، اور انسانی جسم پر انسان کو ملکیت حاصل نہیں ہے ، ، اس لیے زندگی یا مرنے کے بعد اپنا کوئی عضو کسی کو بطور صدقہ یا ہبہ دینا ہرگز درست نہیں، حرام ہے، اور یہ تکریم انسانی کے بھی خلاف ہے اور اس میں تغییر لخلق اللہ بھی پائی جاتی ہے۔