مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
گروپ بندی کا مطلب کسی زمانہ میں موافقت و مخالفت میں الگ الگ ٹولیوں میں بٹنا ہوا کرتا تھا، گروپ بندی اور لابی کی یہ قسم اب بھی موجوود ہے، ان دنوں گروپ بندی کی ایک اور قسم پیدا ہو گئی ہے، جو سوشل میڈیا کی دین ہے، پیغامات مفت بھیجنے کی سہولت نے موبائل اور نیٹ پر بہت سارے گروپ بنا دیے ہیں، اس گروپ بندی کے بہت سارے فائدے علمی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی ہیں، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کے فوائد کے ساتھ نقصانات بھی بہت ہیں، گھر کا ہر فرد اپنے اپنے موبائل پر بیٹھا کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے، شوہر، بیوی بیٹا، بیٹی، والد والدہ سب ایک کمرے میں ہیں، لیکن کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، سب اپنی دنیا میں مگن ہیں، گھر یلو معاملات ومسائل، بچوں کی تعلیم وتربیت، دین کی ترویج واشاعت سے متعلق باتوں کے لئے آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے، اس کے بر عکس بڑی مذہبی، دینی شخصیتوں، علمی اداروں کے بارے میں غیر ضروری تبصرے کرکے شخصیتوں اور اداروں کو مجروح کرنا عام سی بات ہے، گروپ میں نامناسب تصویر اور ویڈ یو کلپس کا بھیجنا عام سی بات ہے، آپ چاہیں نہ چاہیں آپ کے پاس پیغامات آتے رہتے ہیں، خبروں میں تحقیقات کا فقدان ہوتا ہے، اور بے سر پیر کی خبریں منٹوں میں پوری دنیا میں عام ہو جاتی ہیں، بحث کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو گالی گلوج تک نوبت آجاتی ہے، بڑے چھوٹوں کی تمیز ختم ہو جاتی ہے، حفظ مراتب کا خیال باقی نہیں رہتا اور بات غیبت، چغل خوری، جھوٹ، طعن وتشنیع اور اشتعال کے سارے مراحل طے کر ڈالتی ہے۔ بہت سارا وقت فضولیات کی نظرہو جاتا ہے، بچوں نے اپنے اپنے گروپ بنا رکھے ہیں اور ان کا بہت سارا وقت گروپ پر چیٹنگ کرنے میں بر باد ہورہا ہے، درسی کتابوں کی طرف سے توجہ ہٹ رہی ہے، علمی گہرائی اور گیرائی مفقود ہو تی جا رہی ہے، رات رات بھر موبائل پر مصروف ہونے کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہو رہی ہے اور شب بیداری کی وجہ سے صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ جب چھوٹے بچوں میں اس کی لت لگ جاتی ہے تو اس کو سنبھالنا بسا اوقات دشوار ہو جاتا ہے اور پھر اس کی تعلیم متاثر ہونے لگتی ہے۔موبائل کمپنیوں کی طرف سے صارفین کے لئے نت نئے اور دل کش پیکیجز کو دیکھ کر نہ چاہنے والا بھی موبائل فون کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اور یہی ان موبائل کمپنیوں کی چال ہوتی ہے کہ جس سے ان کے نیٹ ورک اور موبائلز زیادہ سے زیادہ صارفین استعمال کریں، مگر ان پیکیجز سے ہماری نوجوان نسل پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں؛جہاں پر موبائل کے استعمال پر کوئی روک ٹوک نہیں، وہاں پر طلبہ وطالبات دوران لکچر موبائل پر ا یس ایم ایس یا گیم سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں اور جس تعلیمی ادارے میں موبائیل فون لے کر آنے پر پابند ی ہے، وہاں پر طلبہ وطالبات پڑھائی کے بجائے موبائیل کو چھپا کر ایس ایم ایس یا گیم وغیرہ پر اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔سوشل میڈیا پر چل رہے گروپز میں ایک اور عام چیز دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ اپنی پرسنل اور ذاتی باتیں بھی گروپ میں شیئر کرنے لگتے ہیں، جس سے دوسرے لوگوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس گفتگو میں شریک ہونا پڑتا ہے، بسا اوقات یہ بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے، اس لیے اگر آپ کسی گروپ سے وابستہ ہیں تو اس بات کا خاص خیال رکھئے کہ ذاتی باتوں سے دوسروں کے وقت کو ضائع نہ کریں، جس سے متعلق بات ہو اس کے ذاتی نمبر پر ان باکس میں میسج کیا کریں، تاکہ کسی شخص کو ناحق تکلیف پہونچانے کے گناہ سے آپ باز رہ سکیں۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ فضول اور لا یعنی حرکتوں اور گروپ بندی کے مضر اثرات سے بچا جائے، کوئی علمی اور اصلاحی گروپ سے اپنے کو وابستہ کرنے میں حرج نہیں، لیکن اس کو دیکھنے کے لیے دوسرے کاموں کی طرح نظام الاوقات بنا لیا جائے، غیر ضروری گروپ سے خود کو الگ کر لیا جائے یا انہیں بلاک کر دیا جائے، اس طرح ہم بہت سارا وقت اپنی خانگی ضرورتوں اور علمی کاموں کے لیے نکال سکیں گے۔