از : قاضی محمد حسن ندوی
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا نہ صرف مسلمانوں بلکہ دشمنان اسلام نے بھی اعتراف وتسلیم کیا ہے ، بقا وابدیت صرف ایک ذات وحدہ لاشریک کے لیے مناسب ہے ، اس کے علاوہ سبھوں کے لیے موت اور فناء مقدر ہے، دنیا میں جو بھی آیا ہے، اسے ایک دن دنیا سے رخصت اور دنیا کو الوداع کہنا ہے ،قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحیح کہا کہ ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ( کل نفس ذائقہ الموت) کسی نے بجا فرمایا ہے
موت سے کس کس کو رستگاری ہے
آج اس کی کل ہماری باری ہے
اکتوبر کے دوسرے عشرے سے ہماری خوش دامن کی طبیعت زیادہ ہی ناساز ہوگئ، ابتدا میں انہیں شکری ہاسپیٹل میں پھر پٹنہ اندرا گاندھی ہاسپٹل میں ایڈمٹ کیا گیا جہاں تقریباً پندرہ دن علاج ہوا ، icu میں رکھا گیا ،کچھ افاقہ ہوا تو ڈاکٹروں کے مشورے سے گھر آگئیں، آکسیجن پر تھیں ، مگر ہوش وحواس باقی تھا ، باتیں کرتیں تھیں، دوسری طرف دوا وعلاج اور و سائل کے استعمال میں کوئی کمی نہیں کی گئی ، اس اعتبار سے مامو محترم حضرت مولانا مختار علی المظاہری صاحب قابل رشک ہیں ، خود معذور ہیں لیکن اس حال میں بھی کئی بار شکری اور ایک بار پٹنہ مرحومہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ، اسی طرح دونوں لڑکے علی اختر ندوی اور حسن اختر سیفی بھی والدہ کی صحت یابی کے لئے بہت کوشاں رہے، آج میرے چچیرے بھائی حافظ نثار صاحب نے ہماری تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں چند دنوں قبل افسانہ مامی کی عیادت کے لیے یکہتہ گیا تھا ، ان کی خبر و خیریت لی ، آدھا گھنٹہ وہاں تھا ، لیکن میں نے علی اختر کو بہت ہی بے چین دیکھا ، کبھی گھر میں آتے ، کبھی باہر ،اسی طرح شکری سے قبل دربھنگہ میں بھی اپنی مرحومہ والدہ کی صحت یابی کیلئے مختلف ہاسپٹل میں جانا، ڈاکٹر سے صلاح ومشورہ کرنا ،دن رات ایک کرنا واقعی علی اختر صاحب کا قابل تحسین عمل ہے ، چھوٹی بیٹی (………) نے بھی تو ہر جگہ ماں کی خدمت کو غنیمت جان کر اپنے آرام و راحت کو قربان کر دی، ہر جگہ والدہ کے ساتھ رہیں، خدمت میں کمی نہیں کی ،اسی طرح دونوں بڑی لڑکیوں نے ماں کی خدمت کی کوشش ہی نہیں کیں بلکہ ایک مہینے کے اندر دو مرتبہ مہاراشٹر اور گجرات سے وطن یکہتہ اور پٹنہ کا سفر کیا ، ظاہر ہے ان دونوں بہنوں کو بھی خدمت کا جو زریں موقع ملا ، وہ ان کی خوش نصیبی اور سعادت مندی کا زینہ ہے، اسی طرح نواسوں میں سے سبھوں نے دعائیں کیں ،لیکن میرے لڑکے حافظ اجود کو حیات میں دس دن پٹنہ میں خدمت کا موقع ملا، نیز والدہ کے ساتھ سفر کرکے جنازہ اور مٹی دیکر ڈبل نیکی اور سعادت حاصل کرنے کا موقع ہاتھ آیا، مگر اولاد والدین کا حق ادا نہیں کر سکتی۔
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوسکا
اسی طرح گھر میں رہ کر چھوٹی بہو اور بڑی بہو ہاسپیٹل اور گھر دونوں جگہ وہ خدمت کی ہیں جن کا تصور آج معاشرہ میں بیٹا اور بیٹی کے علاؤہ کسی سے بھی ممکن نہیں ہے ،
بہرحال اپنے تئیں قریب دور تمام رشتے داروں نے مرحومہ کی صحت یابی کیلئے قربانیاں دیں ۔ خواہ مولانا کے دونوں بھائی ہو یا بھنیں انہوں نے بھی اپنے اعتبار سے ہر موقع پر بھائی کو تسلی اور بھیجتیجو کی رہنمائی کی ، دعا ہے اللہ تعالیٰ سبھوں کی خدمت کو قبول فرمائے، لیکن ظاہر ہے کہ جب کسی کا وقت اجل یعنی موت آجاتی ہے تو اسے ایک سیکنڈ کے لئے کوئی ٹال نہیں سکتا ( اذ ا جاء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون)
بدھ کا دن تھا ، راقم جامعہ اسلامیہ ماٹلی والا بھروچ کی مسجد میں علوم الحدیث کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں حاضر تھا ، دن کے گیارہ بجے یکایک سب سے پہلے حافظ حفظ الرحمان صاحب طوفان پور کا فون آیا کہ انہوں نے کہا کہ یہ خبر صحیح ہے کہ مامی گزر گئیں؟ میں نے کہا نہیں، ابھی تحقیقی خبر نہیں آئی ہے ، ابھی موبائل رکھا ہی تھا کہ برادر عزیز سیفی سلمہ کے فون کی رینگ بجنے لگی، باہر آکر ڈرتے ہوئے فون اٹھایا ،جس کا ڈر تھا اسی کی اطلاع موصوف نے روتے ہوئے دی کہ امی گزر گئیں ، ہماری زبان پر یہ دعا جاری ہوگئ ، انا للہ وانا الیہ راجعون ،ان للّہ مااخذ ولہ ما اعطی وکل شیء الی اجل مسمی ( اللہ کے لئے ہے جو اس نے لیا ہے وہ بھی اسی کا ہے جو اس نے دیا ہے اور ہر کے لیے موت کا وقت مقرر ہے) پڑھتے ہوئے عزیزی سلمہ کو کچھ تسلی دی اور صبر جمیل اختیار کرنے کی گزارش کی ،
نبی کے علاوہ گناہ سے کوئی پاک نہیں ، ہر شخص میں خوبی اور خامی ہوتی ہے ،بڑے ، اساتذہ ،والدین اور مربیوں سے محبت اور عقیدت اور ان سے استفادہ کے لئے تو خوبی ہی پر نظر رہنی چاہیے ، خاص طور پر کسی مسلمان کی موت کے بعد ان کے محاسن ہی کو بیان کرنے کا اہتمام کرے جیسا کہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( اذکروا محاسن مو تاکم وکفوا عن مسا ویھم ) کے تحت شارح مشکٰوۃ ملا علی قاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے لکھا ہے کہ پہلا جزء استحباب پر اور دوسرا وجوب پر دال ہے ، یعنی میت کے بارے میں حکم ہے کہ بولو تو اس کی خوبی ہی کو بیان کرو اور یہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ، لکن دوسرے جزء میں امر وجوب کے لیے ہے یعنی میت کی برائی اور عیوب کو بیان کرنے سے ضرور بچو یہ واجب ہے ،اس لئے میں نیچے مرحومہ کی کچھ اچھی اور سچی باتیں رقم کر دینا مناسب سمجتا ہوں، تاکہ وہ ہمارے لئے باعث عبرت ہو ، اور یہی اصل ان کے اور وارثان خاص طور پر مامو مولانا مختار علی صاحب کے حق میں صحیح تعزیت کا حق ادا کرسکوں اور مرحومہ کے محاسن ہمارے سامنے آئے، اور ہم ان کو اپنی زندگی میں جگہ دے سکیں، اس لئے ہم یہاں کچھ ان کی زندگی کے اہم نقوش کو ذکر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
(1) _یوں تو مرحومہ میں بے شمار خوبیاں اور کمالات تھیں ، ان میں سے ایک خوبی یہ تھی کہ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھیں ،جبکہ مرحومہ کو ہارڈ اور منھ میں زخم ہونے کی وجہ سے سالوں سے تکلیف تھی ، لیکن دوا دعا کے ساتھ شب و روز کے معمولات کی ادائیگی میں ،صوم و صلوۃ کی پابندی میں کسل وسستی کو آڑے آنے نہیں دیتیں ،صبح سب سے پہلے اٹھنا، نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک کا اہتمام برسوں سے تھا، اطلاع کے مطابق رمضان المبارک میں بھی اور رمضان المبارک کے بعد بھی کئی قرآن کریم کو ختم کی ہیں ، میرے لڑکے اجود نے بتایا کہ اماں نے مجھے سے بتائیں کہ رمضان المبارک بعد پانچ مرتبہ قرآن کا ختم کیا ہے ، جب پٹنہ میں زیر علاج تھیں ، آکسیجن پر تھیں ، مگر اس حال میں بھی نماز کی فکر تھی ، میری اہلیہ ایک دن پٹنہ سے پوچھتی ہے کہ امی اس حال میں نماز پڑھ سکتی ہیں ؟ میں نے کہا ہاں ، وضو کرادو ،اشارہ سے پڑھیں کوئی بات نہیں ، واقعی انہیں نماز اور تلاوت قرآن کی حلاوت حاصل تھی ، جس کی تڑپ وجستجو حالت بیماری میں بھی تھی۔ خدا دوعالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو
عجب چیز لذت آشنائی
یہ لذت کیوں نہیں حاصل ہوتی؟ اس لئے کہ وہ حضرت مولانا ممتاز علی المظاہری رحمۃ اللہ علیہ کی پہلی اور بڑی بہو تھیں ، ان کی روحانی اور ایمانی فیض حاصل تھا ، اور بہت کچھ ان سے سیکھی تھی ۔
(2 )
مہمان نوازی بھی ان کی صفت تھی ،حضرت مولانا کی زندگی میں اور ان کے وصال کے بعد بھی معھد البنات یعقوبیہ میں جب بھی جس وقت بھی کوئی مہمان آتا، جو پکا ہوتا خندہ پیشانی کے ساتھ مہمان کا اکرام کرتیں، ابھی چند ماہ قبل مدرسہ ھذا میں تعلیمی ثقافتی پروگرام تھا ،اس موقع پر یکہتہ اور مضافات سے کافی تعداد میں مہمان خواتین آئیں ، مرحومہ بیمار تھیں، عزیزی سیفی نے بتایا کہ اس حال میں بھی اکرام و استقبال کے لیے کئی بار تیسری منزل پر گئیں ، یہ ان کا حسن اخلاق تھا
3 : دوسری ایک خوبی یہ تھی خود تکلیف برداشت کرلیتی لیکن گھر کے دوسرے افراد کو راحت و آرام پہنچانے کی کوشش کرتیں میں نے بارہا دیکھا کہ بیٹیاں ، بہو گھر میں ہیں ان کے ذریعہ کھانا ناشتہ تیار کروا سکتیں ، مگر حکم اور آڈر کے بجائے خود کام کرنے لگ جاتیں ، یہ ان کی بہت بڑی خوبی تھی ، عام طور پر جب گھر میں بہو بیٹیاں ہوتی ہیں تو ساس ماں کا حکم چلتا ہے ، ساس بیٹھی رہتی ہیں ، حکم کرتی رہتی ہیں ، بہو سہمی رہتی ہیں کہ معلوم نہیں کس کام پر گرفت ہوگی ؟ اور کس کام پر طعن و تشنیع کے کلمات سننے پڑیں گے ، مگر ہم نے ان کے گھر میں برعکس معاملہ دیکھا ، یہ کوئی خواب نہیں ،حقیقت ہے ،آنکھوں دیکھا حال ہے ،،یہی وجہ ہے کہ مرحومہ کے گھر میں ایک نہیں دو بہو تھیں ، لیکن نہ کبھی ساس بہو میں اور نہ کبھی دونوں بہو کے مابین لڑائی اور نہ نوک جھونک دیکھا ،یہ دراصل مرحومہ کا نمایاں کردار تھا کہ انہوں نے بہو کے ساتھ بیٹی جیسا سلوک کیا
4 ۔ مرحومہ کم گو تھیں ، سبھوں کو ان سے یہ شکا یت رہتی کچھ بتاتی نہیں ، حتیٰ کہ میری اہلیہ اکثر عرض کرتی کہ امی سے جو پوچھتی ہوں وہی بولتی ہیں ، خود سے سب باتیں نہیں بولتی بہت سی باتیں غیروں سے معلوم ہو جاتی ہیں لیکن امی سے نہیں، یہ بہت بڑی ان کی خوبی تھی ،کیوں کہ فون پر زیادہ دیر گفتگو غیبت ہی ہوسکتی ہے ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھا ہے کہ کوئی شخص زیادہ بات کرے، اور ان کے کلام میں جھوٹ اور غیبت نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا ،اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے “بولو تو اچھی بات ورنہ خاموش رہو”
5: عام طور پر انسان کو کھانے پینے کی جو چیز طبعی طور پسند نہیں ہوتی تو وہ اس سے بعد اور دوری اختیار کرتا ہے ،اس کو پکانا اور دسترخوان پر پیش کرنا اس پر بڑا گراں گزرتا ہے ، لیکن مرحومہ کا حال کچھ اور ہی تھا ،وہ کوئی گوشت نہیں کھاتی تھیں ، لیکن نہ صرف بنانا جانتیں تھیں ، بلکہ اکثر خود ہی بناتیں ، بہت اچھا اور لزیز بناتی، اپنے پسند پر گھر کے دیگر لوگوں کے پسند کو ترجیح دیتیں۔
اخیر میں مرحومہ کی تمام اولاد اور متعلقین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے یہی درخواست کرتا ہوں کہ اب ان کے لئے دعا مغفرت ،صدقہ، ایصال ثواب کریں ، یہ ان کا اولاد صالحہ پر یہی حق ہے، اور یہی تعزیت کا تقاضا بھی ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق دے ، اور مرحومہ کی محاسن جمیلہ کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین
Ameen