*يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النبي*( حجرات : ۲) نبی کی آواز سے تمہاری آواز بھی بلند نہ ہو، صحابۂ کرام کو یہ فرمایا، اس کے بعد کیا حال ہوا؟ حضرت عمر جیسے صحابی جن کی آواز بلند تھی اور حضرت ثابت بن قیس جن کی آواز بھی طبعی طور پر بلند تھی، یہ اتنا آہستہ بولنے لگے کہ آپ کو پوچھنا پڑا کہ عمر تم کیا کہہ رہے ہو؟ اور دوسرے صحابی تو اپنے گھر میں ہی بیٹھ گئے اور یہ آیت سن کر وہ بہت ڈرے اور روئے اور اپنی آواز کو گھٹایا ، *إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللهِ أُولَبِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى* (حجرات: ۳) اللہ پاک نے ان کا امتحان لیا، اور آپ ﷺ کا ادب قرآن نے بتلایا، دوسری آیت میں فرمایا : لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ( نور:۲۳ ) تم آپس میں ایک دوسرے کو جیسے پکارتے ہو تو اللہ کے نبی کو اس طرح نہیں پکارا جائے گا ، نماز میں ہو اور اگر اللہ کے رسول ﷺ بلائے، تو نماز توڑ کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا ضروری ہے، قرآن کریم کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمارے نبی جب تمہیں بلائے *لما یحییکم* (انفال: ۲۴) جس میں تمہاری زندگی ہے۔
آپ ﷺ کے ایک صحابی ہے، آپ ﷺ نے ان کو آواز لگائی، وہ نماز میں تھے، انہوں نے نماز کے بعد حاضری دی، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں؟ میں نے تمہیں بلایا، کہا کہ اللہ کے رسول! میں نماز میں تھا،فرمایا اللہ کا حکم ہے کہ نماز توڑ کر میرے سامنے حاضر ہو جایا کرو ؛ (بخاری: کتاب فضائل القرآن، باب فضل فاتحة الكتاب، ترمذى: أبواب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل فاتحة الكتاب) مطلب یہ ہے کہ اب میں جس چیز کے لئے بلاتا ہوں تو یقینا وہ تمہارے لئے افضل اور بڑی چیز ہے، یہ آپ ﷺ کا ادب اور احترام اور آپ ﷺ کے سلسلہ میں قرآن کریم کی آیات میں ہمیں فرمایا گیا۔ اللہ پاک نے اپنے انبیاء کرام کو فرمایا *وَإِذْ أَخَذَ اللهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّنَ لَمَا أَتَيْتُكُمْ مِنْ كتب وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ* ( آل عمران:۸۱) آگے فرمایا: *لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ* یہ نبیوں کو فرمایا جا رہا ہے کہ ہمارے نبی جب تشریف لائیں گے *لَتُؤْمنن به*، تمہاری موجودگی میں، تمہاری حیات میں اگر وہ نبی آجائے تو *لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ* تمہیں ان پر ایمان لانا ہے، اور ان کی تصدیق کرتی ہے، اور ان کے سلسلہ میں لوگوں کو بتلانا ہے، چنانچہ تمام انبیاء کرام نے اپنی اپنی امتوں کو آپ ﷺ کے سلسلہ میں آگاہ فرمایا ، قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ کے مضمون کو ذکر فرمایا کہ آپ نے فرمایا: “وَمُبَشِّرً ا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسمه أحمد” ( صف:۲) میرے بعد وہ رسول تشریف لائیں گے اور جن کا نام احمد ہو گا، انبیاء کرام جیسی مقدس ہستیوں کو آپ ﷺ کے سلسلہ میں یہ احکام اللہ پاک کی طرف سے نازل ہوئے صحابۂ کرام نے ان چیزوں کو سمجھا اور آپ ﷺ کا
ادب و احترام اور ساری چیزوں کو ملحوظ رکھا۔📚
(مواعظ دار العلوم ماٹلی:جلد:٢،ص:٢٢٢-٢٢٤، افادات: شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا مفتی اقبال صاحب ٹنکاروی حفظہ اللہ