کامیابی کو ہم اکثر دولت، شہرت اور سماج حیثیت سے منسلک کرتے ہیں، لیکن کیا یہ سب کچھ حقیقی کامیابی کے پیمانے ہو سکتے ہیں؟ اگر ہم گہرائی سے دیکھیں تو کامیابی ایک وسیع اور جامع تصور ہے، جس کا تعلق نہ صرف دنیاوی کامیابی سے ہے بلکہ آخرت کی کامیابی سے بھی ہے۔ کامیابی وہ ہے جو آپ کو اندرونی سکون بخشے اور زندگی کے ہر پہلو میں توازن فراہم کرے۔ اس کا حصول تین بنیادی اصولوں پر منحصر ہے: اللّٰہ کے ساتھ مضبوط تعلق، انسانوں کے ساتھ احسن رویہ، اور اپنی صلاحیتوں کا مؤثر استعمال۔
پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ کیسا ہے۔ ایک کامیاب زندگی کی جڑیں اسی تعلق میں پوشیدہ ہیں۔ جب انسان اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر لیتا ہے، تو اس کی زندگی کے ہر پہلو میں سکون اور راحت آ جاتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب” (الرعد: 28) یعنی دلوں کو سکون اللّٰہ کے ذکر میں ہے۔ جب انسان کا دل اللّٰہ کے ذکر سے معمور ہو جاتا ہے، تو دنیا کی مشکلات اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں اور وہ ایک مستحکم زندگی گزارنے کے قابل ہوتا ہے۔ اللّٰہ کی رضا کو زندگی کا محور بنانے والے لوگ حقیقی کامیاب ہیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ انسان اپنے معاشرتی تعلقات کو کیسے قائم کرتا ہے۔ انسان کو اپنی زندگی میں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی سے پیش آنا چاہیے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہو اور اپنی زندگی میں محبت، اخلاص، اور عدل کا رویہ اپنائے۔ حدیث میں رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: “المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده” یعنی “مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں” (صحیح بخاری: 10)۔ یہ اصول معاشرتی کامیابی کا محور ہے۔ جب انسان دوسروں کے ساتھ خیرخواہی، ہمدردی اور درگزر کا رویہ اپناتا ہے، تو وہ ایک خوشگوار اور کامیاب زندگی بسر کرتا ہے۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ انسان اپنی خداداد صلاحیتوں کو پہچانے اور ان کا بہترین استعمال کرے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اصل کامیابی اسی میں ہے کہ انسان ان صلاحیتوں کو مثبت اور مفید کاموں میں صرف کرے۔ حدیث میں رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: “كلكم راعٍ وكلكم مسئول عن رعيته” یعنی “تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا” (صحیح بخاری: 893)۔ انسان کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو کتنا بہتر طور پر نبھاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو کتنا مؤثر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔
اگر ہم ان تین اصولوں کو اپنائیں — اللّٰہ کے ساتھ مضبوط تعلق، انسانوں کے ساتھ بہترین سلوک، اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال — تو ہماری زندگی میں حقیقی کامیابی کا حصول یقینی ہے۔ یہ کامیابی نہ صرف دنیا میں ہمیں سکون اور خوشی دے گی بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کا ذریعہ بنے گی۔ حقیقی کامیابی اسے نصیب ہوتی ہے جو خود بھی مطمئن ہو اور دوسروں کے لیے بھی نفع بخش ہو۔ یہی اصل کامیابی ہے۔
✍️:- عامر کلامؔ
مدرسہ نور الہدیٰ
مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار
20 اکتوبر 2024