ناول : قسم اس وقت کی
ناول نگار : ابو یحییٰ
اشاعت : یسریٰ اکیڈمی
320: صفحات
180: قیمت
180تبصرہ نگار : معاویہ محب اللّٰہ
ریحان احمد یوسفی ناول کی دنیا کا جانا پہچانا نا ہے، اگر تعارف کی ضرورت پڑ ہی جائے تو محض ” ابو یحییٰ” کا عنوان ان کے تعارف کے لئے کافی ہے، جب زندگی شروع ہوگی، قسم اس وقت کی، آخری جنگ اور خدا بول رہا ہے ؛ جیسے خالص دینی و استدلالی ناول کے تخلیق کار کا تصور ذہن میں ابھر کر آ جاتا ہے۔دو دن قبل اس لئے ناول ہاتھ میں لیا کہ دقیق اور خالص علمی موضوعات سے اکتاہٹ اور بوریت ہو جائے تو کچھ ذوقِ جمالیات کی تسکین کا مداوا ہوجائے گا، لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ ابو یحییٰ کا قلم اس قدر مضبوطی کے ساتھ میرے جذبات پر قابو پالے گا، یہ ناول مجھے اپنا اسیر بنا لے گا اور یہی ہوا کہ دو دن مسلسل محوِ مطالعہ رہا اور ناول کے آخری صفحہ تک پہنچ گیا۔
اس کہانی میں ناول نگار نے الحاد و دہریت کے دلدل میں پھنسے ہوئے بہت سارے نوجوانوں کے سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی رہے ہیں، ناعمہ نامی لڑکی، فلسفہ اور نفسیات کی طلبہ ہونے کے ساتھ ساتھ، پوری زندگی یتیمی، ماں کی بیوگی اور نانا کی غربت و افلاس کا دکھ سہ سہ کر الحاد و دہریت کی وادیوں میں بری طرح الجھ گئی ہے، اس کو پیاری سہیلی فاریہ، عبد اللہ، آمنہ اور اسماعیل نانا کی باتوں میں مذہب، دقیانوسیت، تعصب اور تنگ نظری ہی نظر آرہی ہے، سوال پر سوال اس کا روز کا مشغلہ بن گیا ہے، اور کَرَن جیسی ملحدانہ ذہنیت رکھنے والی سہیلی کی جھال میں بری طرح پھنس گئی کہ اس سے نکلتے نکلتے ایک عرصہ بیت گیا۔ ناعمہ نے اسلام پر بے جا اعتراضات کر کرکے سب کو پریشان کر رکھا تھا، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ سوال کرتی تھی بلکہ اس کے سوال کا جواب کہیں نہیں مل رہا تھا، عبد اللہ ہی ایک شخص تھا جو اچھا ماہرِ نفسیات اور اسلام کی صحیح سمجھ بوجھ رکھنے والا تھا، جو ناعمہ کے سوالوں کا جواب دیتا، لیکن جوں جوں عبد اللہ کے دل میں ناعمہ کے لئے عشق ومحبت کے جذبات بڑھتے جاتے تھے، اتنا ہی ناعمہ کے دل میں عبد اللہ کے لئے عداوت، حسد، نفرت، تلخ کلامی جیسے صفات پیدا ہوتے رہتے تھے۔
چنانچہ اسی کشمکش کے عرصہ میں ناعمہ نے اسماعیل نانا اور امی جان کی خواہش کے باوجود عبد اللہ سے منگنی کا انکار کردیا اور ایک مادی ترقی یافتہ نوجوان سے شادی کا پلان بننا شروع ہوگیا، لیکن ایسے میں ناعمہ کی ملاقات خواب میں ” عصر ” سے ہو جاتی ہے، اور پھر قرآن مجید میں بیان ہونے والی اقوام کی داستان جس ہولناک اور تمثیلی صورت میں دکھا دی جاتی ہے تو ناعمہ کا سارا نشہ کافور ہوجاتا ہے۔ناعمہ نے عصر سے دو سوال کئے جس کو لیکر وہ بہت پریشان تھی ؛ (1) خدا سچ کھول کر کیوں نہیں بتاتا اور خدا کیوں اپنی موجودگی اور سچائی کا ناقابلِ تردید ثبوت پیش نہیں کرتا ؟(2) انسان
کی زندگی محرومیوں سے کیوں لدی ہوئی ہے؟سورہ عصر کی روشنی میں ناول نگار نے ناعمہ کے دونوں سوالوں کا تمثیلی انداز میں ایسا جواب دیا ہے جو ہر نوجوان کے دل کی صدا ہونی چاہئے، قرآنی قصص کی روشنی میں ایک ایسی کہانی پیش فرمائی ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے، قومِ نوح کی تباہی، عاد و ثمود کی آندھیاں، فرعون کی غرقابی اور کفارِ مکہ کی شکستِ فاش کے واقعات نے ناعمہ کے ہوش اڑا دئے ہیں۔کہانی کے اسلوب میں نوجوانوں کے ذہن میں
اٹھنے والے بیشتر سوالوں کے جوابات اس خو اسلوبی سے دیے ہیں کہ قاری بے خود ہوکر رہ جاتا ہے ؛ فرائڈ کے فلسفہ Anatomy of the mental personality میں لباسِ تقویٰ کی ضرورت، نظریہ ارتقا (Evolution) کی تردید، کیا کائنات اتفاقی حادثہ کی وجہ سے وجود پذیر ہوئی ہے؟، معصوم بچوں کو عذاب دینے کا کیا سبب ہے؟ محدود گناہوں پر لامحدود سزا کا تصور، انسان کے اخلاقی وجود پر سزا وجزا کا اطلاق، ہم جنس پرستی (Homosexuality) کا رد کی بھرپور تردید فرمائی ہے۔
ناول علمی و استدلالی انداز پر مشتمل ہونے کے ساتھ انتہائی ادبی بھی ہے، اسلوب عمدہ، ادبی الفاظ کا انتخاب، اردو زبان وادب کی عمدہ چاشنی پائی جاتی ہے، حسنِ فطرت کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛”
شفاف نیلگوں آسمان کے نیچے وادی میں دور دور تک سبز گھاس کا فرش بچھا ہوا تھا، ہر جگہ مختلف رنگوں کے حسین پھول کھلے ہوئے تھے، ہر رنگ ایسا تھا کہ نگاہوں کو اپنی طرف سے ہٹ کر کسی اور سمت متوجہ ہونے کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا، ہوا کے مدھم جھونکوں کے ساتھ ہولے ہولے یہ پھول لہرا رہے تھے، یوں لگتا تھا کہ فطرت نے رنگوں کے تار پر کوئی سر چھیڑ دیا ہے جس پر یہ پھول اور کونپلیں بے خودی کے عالم میں محوِ رقص تھیں”(63)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں ؛”
مصورِ کائنات کا فن ہرسُو جلوہ گر تھا، کہیں سائے اور روشنی میں، کہیں پستی و بلندی میں، کہیں سکوت و گویائی میں اور کہیں ٹھہراؤ اور روانی میں، فلک بوس پہاڑ کہیں بلند قامت درختوں کا زیور پہنے گہرے سبز نظر آ رہے تھے تو کہیں تازہ گھاس کی نکھری ہوئی ہلکی سبز رنگ کی قبا اوڑھے ہوئے تھے، کہیں سنگلاخ چٹانیں برف کا سفید لباس اتار کر خاک کا فطری لباس آراستہ کر چکی تھیں تو کہیں چوٹیاں برف کی شفاف ململ پہنے حسنِ سادہ کی بے مثال تصویر بنی ہوئی تھیں، کبھی کبھی سورج بادلوں کے دامن سے نکل کر انھیں اپنی کرنوں سے منور کرتا تو لگتا کہ برف چاندی کے قالب میں ڈھل چکی ہے”(309)
غرض کتاب نہایت عمدہ ہے، خصوصاً ان نوجوانوں کے لئے جو دین کے شائق ہیں، اور وہ عصری علوم کی وادیوں میں گم ہونے کے باعث تشکیک کا شکار ہوچکے ہیں، بلکہ میرا مشورہ تو یہ ہوگا کہ ہر وہ طالب علم جو عصری تعلیم حاصل کرنے کا خواہاں ہو وہ ضرور اس کتاب کو اپنے مطالعہ میں رکھیں۔
✍️ : معاویہ محب اللّٰہ