از: محمد رضی الاسلام ندوی
بنگلہ دیش سے بڑی تشویش ناک خبر آئی ہے ، جس سے واقف ہوکر بہت زیادہ افسوس اور شرمندگی ہوئی – امّت کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ کب ہوش کے ناخن لے گی؟ آج کل جب کہ دنیا کے تمام ممالک میں اسلام کے نام لیواؤں کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے؟ اسلام پر عمل کرنے والوں کو فنڈامنٹلسٹ اور ٹیررسٹ جیسے القاب سے نوازا جارہا ہے اور ان سے رائے اور عمل کی آزادی سلب کی جارہی ہے ، ایسے شنیع اعمال کا ارتکاب کرنے والے اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور اپنے اعمال سے گویا دشمنوں کی باتوں کی تصدیق کررہے ہیں
معلوم ہوا ہے کہ دو روز قبل 18 دسمبر 2024 کو بنگلہ دیش میں ٹونگی عالمی اجتماع میں تبلیغی جماعت کے دونوں گروپوں کے درمیان خون ریز لڑائی ہوئی ہے ، جس میں اب تک چار افراد کے جاں بحق ہونے اور سیکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں – چند برس قبل تبلیغی جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی : ایک کے امیر مولانا سعد صاحب ہیں ، جب کہ دوسرا گروپ شوریٰ والوں کا کہلاتا ہے – اسی وقت سے ہندوستان کی مختلف مساجد میں ، خاص طور پر اجتماعات کے مواقع پر دونوں گروپوں میں خون ریز لڑائیاں ہوتی رہی ہیں –
اب تازہ واردات بنگلہ دیش میں پیش آئی ہے – میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹونگی میدان میں شوریٰ والے اعلان کے مطابق اپنا اجتماع کر رہے تھے – رات کے آخری پہر تقریباً تین بجے مولانا سعد گروپ کے لوگوں نے اجتماع گاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور متعدد اطراف سے حملہ آور ہوئے – چنانچہ اجتماع کے میدان میں الگ الگ مقامات پر دونوں گروپوں کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں – کافی دیر کے بعد پولیس پہنچی اور اس کی کوششوں سے معاملہ قابو میں آیا –
اس تنازعہ کو کسی جماعت کا اندرونی معاملہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا – نہ دوسری جماعتوں کے وابستگان کو اس پر خوش ہونا ، تالیاں بجانا یا طنز و تعریض کرنا زیب دیتا ہے – یہ امّتِ مسلمہ کے تمام افراد کے لیے انتہائی شرم ناک ، تشویش ناک اور افسوس ناک ہے – تبلیغی جماعت کے کام کو پوری دنیا میں پسندیدگی اور تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے – اس سے وابستہ افراد اسلام کا تعارف کرانے اور نام کے مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنانے کے لیے قریہ قریہ بستی بستی گھومتے ہیں – ان کے اخلاص ، دین داری اور للہیت میں شبہ نہیں کیا جاسکتا – لیکن موجودہ صورت حال ان کی تمام نیک نامی پر پانی پھیر دینے اور انہیں نہ صرف مسلمانوں بلکہ عام انسانوں کی نگاہوں سے گرا دینے کے لیے کافی ہے –
باشعور مسلمانوں کو اس کی فکر کرنی چاہیے اور دونوں گروپوں کے اختلافات کو دوٗر کرانے اور ان کے درمیان مصالحت کرانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے – یہ کام بنگلہ دیش میں سرگرم تمام دینی جماعتوں اور تنظیموں کے ذمے دار حضرات کریں اور ہندوستان میں دونوں گروپوں کے ذمے دار بھی وہاں کے لوگوں سے رابطہ کریں اور افہام و تفہیم کی کوشش کریں – دونوں گروپ اللہ کے لیے کام کررہے ہیں ، ان کی کوئی ذاتی غرض ان کی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہے تو ضرور ان کی شکایتیں دوٗر ہوجائیں گی اور وہ اپنے اپنے دائروں میں سرگرمیاں انجام دیں گے –