تواضع و انکساری
آپ کے مزاج کا نمایاں پہلو تواضع و انکساری کا تھا ، آپ مقام نبوت پر فائز ہیں ، اور پورا جزیرة العرب آپ کے قدموں میں ہے ، لیکن تواضع اور سادگی کا حال یہ تھا ، کہ گھر پر خود چھاڑو دے لیتے ، بازار سے سودا لاتے ، جوتی پھٹ جاتی تو اسے سی لیتے ، بکری کا دودھ دوہ لیتے ، کھانا کے لیے بیٹھتے تو نہایت تواضع کی کیفیت کے ساتھ ، اور فرماتے کہ میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے غلام کو کھانا چاہیے : أنا أكل كما يأكل العبد ” اگر کوئی غریب آدمی کسی معمولی سی چیز پر مدعو کرتا تو اس کی دعوت قبول فرما لیتے ، مریضوں کے گھر پہنچ کر ان کی عیادت کرتے ، غلاموں کی دعوت بھی قبول فرماتے ، ہر عام و خاص کے جنازہ میں شریک ہوتے ، گدھے کو معمولی سواری سمجھا جاتا تھا ، مگر آپ اس کی بھی سواری کیا کرتے تھے ، اور اگر کوئی غلام دعوت دے تو اسے بھی قبول فرماتے تھے، لوگ تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے تو منع فرما دیتے ، اگر کسی باندی کا بھی کوئی کام ہوتا اور وہ بھی سر راہ اپنی کسی ضرورت کے لئے روکتی تو رک جاتے ، بڑے تو بڑے چھوٹے بچوں کو بھی سلام فرماتے ، رفقاء کے ساتھ اس طرح بیٹھتے کہ امتیازی شناخت نہ ہونے کی بنا پر لوگ آپ کو پہچان نہیں پاتے ، اپنے لئے تعظیم کے جائز الفاظ بھی پسند نہیں فرماتے ، ایک بار بعض حاضرین نے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آقا ( سید ) ہیں فرمایا : نہیں ، “آقا تو خدا کی ذات ہے” ایک بار لوگوں نے عرض کیا : آپ ہم سب سے افضل و برتر ہیں ، آپ نے اس تعبیر کو بھی پسند نہیں فرمایا ، تواضع و فروتنی کا یہ حال تھا کہ فتح مکہ کے موقعہ پر جب دس ہزار مسلح جاں نثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد و پیش تھے ، انکساری کی وجہ سے آپ کا سر مبارک اس قدر جھکا ہوا تھا کہ بار بار اونٹنی کے کوہان سے ٹکرا جاتا تھا ،
آپ کا رہن سہن بھی تواضع کا مظہر تھا ، ایک بار حضرت عمر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ کھلی چٹائی پر آرام فرما رہے ہیں ، جس پر کوئی بستر بھی نہیں ہے ، اور سر مبارک کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے ، جس میں چھالیں بھری ہوئی ہیں ، بدن مبارک پر چٹائی کے نشانات ہیں ، حضرت عمر یہ منظر دیکھ کر رونے لگے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت کیا ، کہنے لگے : اللہ کے رسول ! قیصر و کسریٰ تو عیش و عشرت میں زندگی گذار رہے ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے باوجود اس حالت میں ہیں ، ارشاد ہوا : کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت ۔
حج کا سفر فرمایا تو تو پرانے کجاوے پر ، نیز اس پر ایک ایسے کپڑے کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا جس کی قیمت چار درھم سے بھی کم ہی ہوگی : “حج النبي على رحل ورق و قطيفة تساوي أربعة ودراهم”آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بہتر سے بہتر کپڑا آپ کو میسر آسکتا تھا ، لیکن آپ ہمیشہ تواضع کا راستہ اختیار کرتے تھے ، یہاں تک کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو جسم اقدس پر ایک چادر اور گاڑھی کھر دری تہبند تھی ، تواضع ہی کا ایک پہلو یہ تھا کہ تعظیم میں مبالغہ پسند نہیں کرتے تھے ، بعض صحابہ دوسرے علاقوں میں گئے تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں ، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدہ کی اجازت چاہی اور عرض کیا : آپ تو ان سے زیادہ مسجود بننے کے مستحق ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر کسی کو سجدہ کی اجازت ہوتی تو بیوی کو اجازت ہوتی کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے ، لیکن خدا کے سوا کسی کے لیے سجدہ روا نہیں ، ایک صاحب دوران گفتگو بول پڑے : جو خدا چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں ، آپ نے فرمایا : نہیں ، صرف خدا چاہے ، ایک انصاری کی شادی میں کچھ لڑکیاں دف کے ساتھ نغمے گا رہی تھیں ، انھوں نے اس میں ایک مصرع پڑھا ، ” و فینا نبی یعلم مافی غد” ( اور ہمارے بیچ ایسے پیغمبر ہیں جو کل واقع ہونے والی باتوں کو جانتا ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مصرع چکو پڑھنے سے منع فرمادیا ، جس روز آپ کے صاحب زادے حضرت ابرہیم کی وفات ہوئی ، اتفاق سے اسی دن سورج گہن لگ گیا ، جاہلیت کے قدیم تصور کے مطابق لوگ کہنے لگے کہ صاحب زادہ نبوی کے انتقال کی وجہ سے گہن لگا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس کی تردید میں باظابطہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔ بلکہ بعض دفعہ آپ جس تعریف کے مستحق تھے وہ بھی کی جاتی تو پسند نہ فرماتے ، ایک صاحب خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے مخلوق میں سب سے بہتر شخص ( خیر البشر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ تو حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ذات ہے ، ایک موقع پر فرمایا کسی کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ میں حضرت یونس علیہ السلام بن متی سے افضل ہوں ، آپ نے اس سلسلے میں ایک اصولی بات ارشاد فرمائی کہ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں مبالغہ کیا تھا تم لوگ میرے بارے میں اس طرح مبالغہ نہیں کرنا : لا تطرني كما اطرط النصاري “
آپ نے تواضع پر عمل بھی کیا اور امت کو بھی اس کی تلقین فرمائی ، کیوں کہ تواضع حسن اخلاق کی بنیاد ہے ، اور تکبر بد اخلاقی کا سب سے بڑا سبب ہے ، آپ نے فرمایا چ: اس شخص چکے لئے خوشخبری ہے جو تواضع اختیار کرے : ” طوبي لمن تواضع” آپ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرماتے ہیں: ” و ما تواضع أحد لله إلا غفره الله ” چوں کہ تواضع کا پہلو ظاہری سادگی بھی ہے ، اس لئے آپ لباس و پوشاک اور رہن سہن میں سادگی کو پسند فرماتے تھے ، آپ نے فرمایا : سادگی ایمان کا ایک حصہ ہے ، ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ جس نے قدرت کے باوجود تواضع اختیار کرتے ہوئے عمدہ لباس نہیں پہنا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے ، اور جو لباس وہ پسند کرے گا ، اسے اس کو پہننے کا اختیار دیا جائے گا ، اس تواضع کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غرباء کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے غریب لوگوں کے درمیان تلاش کرو ، اس لئے کہ تمہیں تمہارے کمزوریوں کی وجہ سے ہی رزق دی جاتی ہے اور مدد کی جاتی ہے : فإنما ترزقون و تنصرون لضعفائكم”
نوٹ : یہ مکمل مضمون مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب پیغمبر عالم سے ماخوذ ہے ،