:ڈاکٹر مفتی محمد شاہ جہاں ندوی
سوال نمبر: 287آن لائن بینکنگ کی شرعی حیثیت واضح فرمادیں
-الجواب-و باللہ تعالیٰ التوفیق-:
“آن لائن بینکنگ” کی تعریف:”آن لائن بینکنگ” بینکوں اور مالیاتی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ ایک سہولت ہے، جس کی بدولت صارفین انٹرنیٹ پر بینکنگ خدمات حاصل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں-یہ خدمات ” یو ایس ایس ڈی کوڈ” (ussd code)، “ٹیلی بینکنگ” (tele banking)، “ڈیبٹ کارڈ” (debit card) اور “کریڈٹ کارڈ”(credit card) کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہیں-دیگر نام:”آن لائن بینکنگ” کو “ای بینکنگ”(e- banking)، “ورچول بینکنگ” (virtual banking) اور “انٹرنیٹ بینکنگ” (internet banking) وغیرہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے-
“آن لائن بینکنگ” کے فوائد:
“آن لائن بینکنگ” کے درج ذیل فوائد ہیں
:1- کسی وقت بھی اپنے بیلنس کو چیک کیا جا سکتا ہے، اور لین دین کا ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے-2- ہر ماہ آسانی سے بل کی ادائیگی ہوسکتی ہے-3- ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی جاسکتی ہے-4- اپنے ٹیکس یا ذاتی ریکارڈ کی تفصیلات ڈاؤن لوڈ یا پرنٹ کی جاسکتی ہیں-5- ہفتہ کے ساتوں دن 24/ گھنٹے اپنے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے-
“آن لائن بینکنگ” کے نقصانات:
“آن لائن بینکنگ” کے درج ذیل نقصانات ہیں:1
– آن لائن بینکنگ خدمات انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں-2- آن لائن بینکنگ لین دین ہیکرز (hackers) کی زد میں آسکتی ہے-3- جو لوگ انٹرنیٹ کے استعمال سے دور ہوں، ان کے لیے انٹرنیٹ بینکنگ کو سمجھنا دشوار ہے-4- پاس ورڈ کے بغیر انٹرنیٹ بینکنگ تک رسائی نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا اسے محفوظ رکھنا بہت اہم ہے، دوسروں پر ظاہر ہونے کی صورت میں دھوکہ دہی کے لیے اس کا استعمال ہوسکتا ہے- یہی وجہ ہے کہ لوگ بار بار پاس ورڈ تبدیل کرتے ہیں، جس کی بنا پر خود ان کو پاس ورڈ یاد رکھنے میں پریشانی ہوسکتی ہے-
شرعی احکام:” آن لائن بینکنگ” کے درج ذیل احکام ہیں:1
– “ڈیبٹ کارڈ” کا استعمال جائز ہے، اس لیے کہ اس کا استعمال اکاؤنٹ میں موجود بیلنس کے ساتھ مشروط ہے، اگر اکاؤنٹ میں بیلنس ہے، تو اس کارڈ کا استعمال ممکن ہے، ورنہ نہیں- اس کارڈ کے ذریعہ بینک اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنے قرض واپس لینے کی سہولت فراہم کرتا ہے، یہ اپنے قرض کو آسانی سے واپس لینے کا ذریعہ ہے، جس میں شرعی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں ہے-2- “کریڈٹ کارڈ” کو زیرو بیلنس کی صورت میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے- رقم نکالنے کی صورت میں اسی دن سے سود ادا کرنا پڑتا ہے، جبکہ خرید وفروخت کی صورت میں 50/ دن کے اندر رقم جمع کردینے کی صورت میں کوئی سود ادا کرنا نہیں پڑتا ہے، اس کے بعد ادائیگی کی صورت میں سود ادا کرنا پڑتا ہے-اسلامی شریعت میں اصولی اعتبار سے سود لینا اور دینا دونوں حرام ہیں- ایک مدت کے بعد ہی سہی اس معاملے میں چونکہ سود کی شرط ہے، جو معاملہ کو فاسد کرنے کے لیے کافی ہے-“بدائع الصنائع” میں ہے: “و زيادة منفعة مشروطة في العقد لا يقابلها عوض في معاوضة المال بالمال يكون ربا، أو فيها شبهة الربا، وكل ذلك مفسد للعقد”. (کاسانی، بدائع الصنائع، کتاب الاجارہ، فصل شرائط رکن الاجارہ 4/195، بیروت، دار الکتاب العربی، 1982،ع.أ.:7)-لہٰذا عام حالات میں زیرو بیلنس کی صورت میں “کریڈٹ کارڈ” کا استعمال، قرض لینے یا خرید وفروخت کے لیے جائز نہیں ہے-شرعی متبادل (Shariah alternate):سود کی شرط حذف کر دی جائے-وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی حالت میں آئندہ اس کارڈ کی سہولت سے محروم کیا جا سکتا ہے-ضرورتِ کے مواقع:اگر کسی ملک میں اس کارڈ کے استعمال کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو، کسی بھی خدمت کے حصول کے لیے اس کا استعمال ناگزیر ہو، تو ایسی صورت میں ” کریڈٹ کارڈ” کے استعمال کی گنجائش ہے- البتہ سود عائد ہونے کی مدت سے پہلے قرض کی ادائیگی کردے، تاکہ سود کھلانے کے گناہ کا وبال اس پر لازم نہ آئے-اسی طرح کسی خدمت یا ادائیگی کے لیے “کریڈٹ کارڈ” کا استعمال ناگزیر ہو، تو اس کا استعمال کر سکتا ہے-3- آن لائن منی ٹرانسفر کی صورت میں مناسب متعینہ یا فیصدی اجرت لینا جائز ہے، اس لیے کہ یہ اپنی فراہم کردہ خدمت کی اجرت لینا ہے، جو اجارہ ہے، اور شرعاً جائز ہے-“الاختیار” میں ہے: و بعوض، وهو الإجارة، و سميت بيع المنافع لوجود معنى البيع، و هو بذل الأعواض في مقابلة المنفعة”. (ابن مودود موصلی، الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الاجارہ 2/53، ط: 3، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1426ھ/2005ء، تحقیق: عبد اللطیف محمد عبد الرحمن، ع.أ.:5)-“المبسوط” میں ہے: “و هذا دليل جواز الإجارة، و جواز استئجار الحر للعمل، ووجوب إعلام الأجر، و أنه لا يجب تسليم الأجر بنفس العقد”.(سرخسی، المبسوط، کتاب الاجارہ 15/67، ط:1، بیروت، دار الفکر، 1421ھ/2000ء، تحقیق: خلیل میس، ع.أ.:31)-واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب، علمہ اتم و احکم