“اعتماد پر مبنی لین دین” (💳 credit transaction): شرعی نقطہء نظر
از: ڈاکٹر مفتی محمد شاہ جہاں ندوی
سوال نمبر: 262″کریڈٹ ٹرانزیکشن” میں ایک متعینہ مدت کے بعد سود کی شرط ہوتی ہے، یہ شرعی اعتبار سے جائز ہے یا نہیں؟
الجواب-و باللہ تعالیٰ التوفیق-:
“کریڈٹ ٹرانزیکشن” کی حقیقت:”کریڈٹ ٹرانزیکشن” (credit transaction) کاروباری لین دین (business transaction) کی ایک قسم ہے- کاروباری لین دین دو یا دو سے زائد فریقوں کے درمیان مالی لین دین ہے، جس میں سامان، رقم یا خدمات کا تبادلہ شامل ہوتا ہے-“کریڈٹ ٹرانزیکشن” میں ادائیگی ایک مقررہ وقت کے بعد کی جاتی ہے، جسے کریڈٹ پیریڈ (credit period) کہا جاتا ہے-مثال:مثال کے طور پر سلیم کو ” واشنگ مشین” (washing machine) چاہیے، وہ ایک اسٹور جاتا ہے، ایک “واشنگ مشین” اس شرط کے ساتھ خریدتا ہے کہ لین دین کے وقت ادائیگی کرنے کی بجائے، اسٹور ادائیگی کے لیے 30/ دن کی مہلت دے گا- اس مدت میں اگر وہ ادائیگی کر دیتا ہے، تو کوئی سود ادا نہیں کرنا پڑے گا – اسے “سود سے خالی مدت” (interest free period) کہا جاتا ہے- لیکن اگر وہ اس مدت کے بعد رقم ادا کرے گا، تو اسے سود دینا پڑے گا-شرعی احکام:عقد (contract) کے اندر سود کی شرط کے ساتھ معاملہ کرنا شرعی اعتبار سے جائز نہیں ہے، اگرچہ ایک مدت کی مہلت کے بعد سود کی شرط ہو- اسلامی شریعت میں ہر طرح کا سود حرام ہے، شریعت سود ہی نہیں اس کے سایہ کو بھی پسند نہیں کرتی ہے- سود کی قباحت و شناعت کی وجہ سے کتاب وسنت میں اسے قطعی طور سے حرام قرار دیا گیا ہے- دلائل:اس کے دلائل درج ذیل ہیں:1- اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (و أحل الله البيع و حرم الربا) (2/ بقرہ: 275)- (حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو حلال قرار دیا ہے، اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے)-ایک دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہے: (یا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا الربا أضعافا مضاعفة، واتقوا الله لعلكم تفلحون). (3/ آل عمران:130)- ( اے ایمان والو! چند در چند سود مت کھاؤ ( کمی بیشی کی قید نہیں، سود کی یہی فطرت ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے) اور اللہ سے ڈرتے رہو، ممکن ہےکہ تم کامیاب ہوجاؤ)-نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: (يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين. فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله و رسوله، و إن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون). (2/ بقرہ: 278-279)- (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو، اگر تم ایمان رکھتے ہو- اگر تم ایسا نہیں کرتے ہو تو تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے- اور اگر تم توبہ کرلیتے ہو تو تمہیں اصل سرمایہ ملے گا، نہ تم ظلم کرو، اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے گا)-2- ایک حدیث میں نبی اکرم – صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے سات ہلاک و برباد کرنے والی چیزوں میں سے ایک سود کو قرار دیا ہے- (دیکھیے: صحیح البخاری، کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ: (إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما….، حدیث نمبر 2766، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الکبائر و اکبرھا، حدیث نمبر 88)-ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم – صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے سود خوار کے انجام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ فرشتوں کے ساتھ ہم ایک خون کی ندی پر پہنچے، جس کے درمیان ایک شخص کھڑا تھا، اور ندی کے کنارہ ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر تھے، جب ندی کا شخص نکلنا چاہتا تو کنارہ کا شخص اس کے منہ پر پتھر مارتا، اور اسے اسی جگہ لوٹا دیتا جہاں وہ تھا، یہ معاملہ اس کے ساتھ مسلسل ہوتا رہتا ہے- میں نے فرشتے سے پوچھا یہ کون ہے؟ فرشتے نے جواب دیا: “آكلوا الربا”. ( صحیح البخاری، کتاب التعبیر، باب تعبیر الرؤیا بعد صلاة الصبح، حدیث نمبر 7047، صحیح مسلم، كتاب الرؤيا، باب رؤيا النبي- صلى الله تعالى عليه و سلم-، حدیث نمبر 2275)- ( وہ سود خواروں میں سے ہے)-3- فقہاء کے اقوال سے استئناس:فقہاء نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے کہ جس طرح سود سے عقد فاسد ہوجاتا ہے، اسی طرح شبہ سود سے بھی عقد فاسد ہوجاتا ہے- نیز سود کی شرط مکمل عقد کو فاسد کردیتی ہے، اور ایسا معاملہ کرنا حرام ہے جس میں حرام شرط ہو، اس لیے کہ سود کی شرط کلی طور پر عقد کو فاسد کرنے والی ہے؛ کیونکہ یہ فساد کے عمومی اسباب میں سے ہے- ابن رشد حفید – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- رقمطراز ہیں: “و إذا اعتبرت الأسباب التي من قبلها ورد النهي الشرعي في البيوع، و هي أسباب الفساد العامة وجدت أربعة: أحدها: تحريم عين المبيع. والثاني: الربا. والثالث: الغرر. والرابع: الشروط التي تئول إلى أحد هذين أو لمجموعهما”. (ابن رشد، بدایة المجتهد، كتاب البيوع، اسباب الفساد 2/103، بیروت، دار الفکر، 1415ھ/1995ء)-علامہ کاسانی – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- تحریر فرماتے ہیں: “و البيع الذي فيه الربا فاسد، أو فيه شبهة الربا، و إنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا”. ( کاسانی، بدائع الصنائع، کتاب البیع، فصل شرائط الصحہ 5/169، بیروت، دار الکتاب العربی، 1982ء)-ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:”و اشتراط الربا في العقد مفسد له”. (مرجع سابق 5/194)-لہٰذا بے غیر اضطرار و مجبوری اور ضرورت شدیدہ کے “کریڈٹ ٹرانزیکشن” (credit transaction) درست نہیں ہے، یعنی اس شرط کے ساتھ خریداری کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے کہ تیس دن کی مہلت کے بعد ادائیگی کی صورت میں سود ادا کرنا پڑے گا-شرعی متبادل (Shariah alternate):سود کی شرط حذف کردی جائے، اس طرح معاملہ ہو کہ تیس دن کی مہلت ہے، اس کے بعد ادا کرنے پر کوئی سود ادا کرنا نہیں پڑے گا- لیکن آئندہ اس طرح کی مہلت فراہم نہیں کی جائے گی-
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب، علمہ اتم و احکم