واقعتاً زمانہ بہت ہی  شوق سے سن رہا تھا ، اور اسی شوق کے ساتھ ان شاءاللہ ان کو یاد بھی رکھے گا، میرے خیال سے ہر وہ شخص جو سوشل میڈیا کو دیکھتا ہے، وہ ضرور بالضرور اس صحافی کے نام اور ان کی خدمات سے متعارف ہوگا ، لیکن کل صبح نو بجے کے قریب جب میں خود بخار ، سر درد ، کھانسی وغیرہ سے پریشان تھا ، اس وقت واٹسپ پر یہ خبر گردش کرتی نظر آئیں، کہ مشہور و معروف صحافی جناب کمال خان صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے ،  

    إنا لله و إنا إليه راجعون ، 

       بیماری اور آرام کے نام پر بستر پر لیٹے لیٹے ہی کل سے آج تک کئی ویڈیوز دیکھ چکا ہوں جو کمال خان  کے سوانح اور حالات زندگی سے متعلق تہیں ،  جس سے اندازہ ہوا کہ ایک بہت بڑا صحافی ہمارے بیچ سے چلا گیا ہے، اور انڈیا نے صحافت کی دنیا کے ایک  بہت بڑے قلم کار ، تبصرہ نگار ، خبر نگار ، تجزیہ نگار ، اور  نیوز رپوڑٹر،  کو کھو دیا ہے ، ان کے انتقال پر ملک کے مختلف دانشوروں ، صحافیوں اور سیاست دانوں نے بھی گہرا رنج و غم اور صدمہ کا اظہار کیا ہے، اور ان کے لیے دعا مغفرت کی ہیں ، 

         کمال خان  کی پیدائش 1960میں ہوئیں ، انہوں نے اپنی تعلیمی سفر مکمل کرنے بعد  زندگی کے ایک طویل عرصے تک NDTV India کے ایک نیوز رپوڑٹر کی حیثیت سے صحافت کی دنیا میں ایک تاریخی اور نمایاں خدمات انجام دیا ہے  ، یوپی (لکھنؤ) کے رپوڑٹر تھے ، انہوں نے اجودھیا، متھرا اور کاشی جیسے موضوعات پر اور یوپی کے دوسرے مختلف علاقوں سے خاص خاص واقعات کی رپورٹنگ اس انداز سے کی ہیں جس طرح کی رپورٹنگ کا اندازہ آج کل کسی بڑے سے بڑے صحافی سے بھی تصویر نہیں کیا جاسکتا ہے،

         سب سے پہلے میں کمال خان کے نام سے اس وقت متعارف ہوا جب انہوں نے NRC/CAA کے خلاف ہور ہے (گھنٹے گھر) پروٹسٹ کی رپورٹنگ کی ، وہ رپورٹنگ بھی بہت عمدہ اور اعلیٰ ترین تھی ، اسی طرح اس سے کچھ ہی روز  قبل انہوں نے دارالعلوم ندوہ العلماء کے طلباء نے جو پڑوتسٹ کیا تھا اس کی بھی رپورٹنگ انہوں نے ہی عمدہ طریقہ اور سلیقہ مندی سے کی تھی ،

      سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے دیکھنے کے بعد ان کے تئیں جو میرا تصور تھا اس کو میں نیچے قلم بند کیے دے رہا ہوں ،

     مسکراتا چہرہ  لیکن رعب دار ،  گفتگو میں نرمی، مذکرات میں کشش، انداز بیان میں کھلاپن، اپنے کام میں ایماندار، اپنی فکر میں غیر جانبدار اور ان کے طور طریقوں میں اپنائیت ، کڑوی سے کڑوی بات کو انتہائی نرمی اور سلجھے ہوئے انداز سے پیش کرنے کا کمال ان کو خوب حاصل تھا،  ملک اور ریاست کے دلخراش حالات میں بھی وہ دیگر صحافیوں کی طرح اپنا آپا نہیں کھوتے تھے،  وہ خبروں کی تہہ اور اس کے پس منظر کو خوب ٹھوک بجا کر پیش کرتے تھے، حکومت وقت کی دھونس اور کسی بھی لالچ سے وہ کوسوں دور تھے، اجودھیا، متھرا اور کاشی جیسے موضوعات پر بھی وہ بے باکی، جرأت کا مظاہرہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، 

     ان کے مختلف صحافی دوست کے بقول چار لائن کی اسکیپ لکھنے میں درجنوں صفحات کا مطالعہ کر لیتے تھے ، دوران سفر کتابیں ساتھ لیکر جاتے تھے اور راستے میں مطالعہ کا دامن نہیں چھوڑتے تھے ، رپورٹ کی تیاری میں دلائل کا خاص اہتمام کرتے تھے ، اور صحافت کے اصول و ضوابط کے پابند تھے ،