زندگی میں ہر انسان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عموماً ہم ان مسائل کو اپنی غلطیوں یا گناہوں کا نتیجہ سمجھ لیتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ آزمائشیں ہماری تربیت اور کردار سازی کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ مصیبتیں ہماری استقامت اور صبر کا امتحان لیتی ہیں اور ہمارے ایمان کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “ہم ضرور تمہیں خوف، بھوک، مال، جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ (البقرہ:155) ۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مشکلات اللّٰہ کی طرف سے آزمائشیں ہیں، جن کا مقصد ہمارے ایمان کو مضبوط کرنا اور روحانی ترقی دینا ہے، نہ کہ گناہوں کی سزا دینا۔
جب میرا پاؤں ٹوٹا تو کچھ لوگوں نے اسے میری کسی غلطی یا گناہ کا نتیجہ قرار دیا، لیکن غور کرنے پر میں نے یہ سمجھا کہ یہ آزمائش دراصل میری اندرونی طاقتوں کو پرکھنے اور مجھے مزید بہتر بنانے کے لیے تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “مؤمن کو جب کوئی تکلیف، بیماری، غم یا پریشانی لاحق ہوتی ہے، تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔” (صحیح البخاری: 5641)
اس حدیث کا پیغام یہ ہے کہ مشکلات دراصل ہمارے لیے رحمت کی مانند ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں اپنی کمزوریوں اور طاقتوں کا ادراک کراتی ہیں اور ہمیں اپنے اندر جھانکنے کا موقع دیتی ہیں۔ مشکلات ہمیں روحانی ترقی اور گناہوں کی معافی کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ آج کے دور میں، جہاں ذہنی دباؤ اور پریشانیاں عام ہیں، ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ہر مشکل، چاہے کتنی بھی بڑی ہو، ہماری زندگی میں بہتری کا ذریعہ بن سکتی ہے، اگر ہم اسے صبر اور شکر کے ساتھ قبول کریں۔ ان مسائل کا سامنا ہمیں خود کو مضبوط اور بہتر بنانے کا موقع دیتا ہے اور یہ یاد دہانی ہے کہ اللّٰہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔
یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ مشکل اور آسانی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ جہاں ایک طرف مشکلات آتی ہیں، وہیں آسانی اور حل بھی موجود ہوتے ہیں۔ دنیا کا نظام ایسا ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، وہ اپنے ساتھ حل کے راستے بھی لاتا ہے۔ کچھ مشکلات جسمانی محنت سے حل ہوتی ہیں اور کچھ دانش و حکمت سے۔ اگر کسی راستے میں رکاوٹ آ جائے تو اسے دور کرنے کے لیے حکمتِ عملی اور تدبیر کی ضرورت ہوتی ہے __ لہٰذا، ہر پریشانی کو ایک تربیتی موقع کے طور پر دیکھنا چاہیے، جو ہمیں اللّٰہ کی قربت کی طرف لے جاتا ہے۔ آزمائشیں ہماری ذہنی اور روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں، اور ہمیں ان سے گھبرانے کے بجائے ان سے سیکھنے اور اپنے اندر مزید بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تحریر: عامر کلامؔ
مدرسہ نور الہدیٰ
مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار
23 اکتوبر 2024