(اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکا 33واں فقہی سیمینارجامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ ضلع (سیتامڑھی بہار میں
آج سیمینار کی دوسری نشست ہوئی چاہتی ہے،اصحاب افتاء اور ماہرین فقہ و فتاوی کی ایک بڑی تعداد احاطہ جامعہ میں موجود ہیں، نت نئے مسائل اور سلگتے ہوئے حالات کے پیش نظر امت کو پیش آمدہ جدید چیلنچیز کے جوابات مطلوب ہیں۔اکیڈمی کا شروع سے ہی یہ دستور رہا ہے کہ جدید مسائل کا آسان حل تلاش کر امت کے سامنے پیش کیا جائے، جو نصوص شرعیہ اور قواعد فقہہ سے مربوط اور دین وشریعت سے ہم آہنگ بھی ہوں۔اس سیمینار میں پانچ موضوعات زیر بحث ہیں۔1
۔علاج ومعالجہ میں کمیشن اوردواؤوں کی مقررہ تاریخ کےبعدفروختگی کےمسائل
۔2۔تعلیمی ودعوتی کاموں کےلئےانٹرنیٹ سےاستفادہ
۔3۔موجودہ دورمیں فسق سے مراداوراس پرمرتب ہونےوالےاحکام
۔4۔مصنوعی ذہانت سے استفادہ
۔5۔خواتین کی ڈرائیونگ سے متعلق بعض مسائل۔
بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ سال رواں کا یہ سیمینار اپنی جائے پیدائش سے کچھ ہی فاصلے پر منعقد کیا گیا ہے، بانی اکیڈمی فقیہ العصر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب نوراللہ مرقدہ کے وطن مالوف سے قریب ہی اس کی میزبانی کا شرف جامعہ قاسمیہ کوحاصل ہے۔یہ ریاست بہار کا دوسرا فقہی سیمینار ہے، ایسے میں اہلیان بہار بالخصوص علمائے بہار اور خصوصا نظماء و مہتممین بہار و ذمہ داران مدارس اسلامیہ بہار کی دوہری ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ اپنے اپنے مدارس کے لئے کتابوں کی خریداری کے لئے ضرور سبقت کریں، مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پہ زیر قرطاس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ گرچہ بہار میں وسائل و اسباب کی یقینا قلت ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ذمہ داران مدارس اسلامیہ کتابوں کی خریداری نہ کرسکیں، اور اپنے اپنے مدارس کو جدید تقاضوں سے لیس نہ کرسکیں، حقیقت تو یہ کہ سالہا سال بت گئے لیکن اس طرف نہ تو توجہ کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی نے توجہ دلانے کی کسک محسوس کی کہ مدارس میں ایک معیاری لائبریری اور کتب خانے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت مواد بآسانی مہیا ہوسکے۔قدیم سے قدیم ترین مدارس ایک زمانے سے امت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں لیکن کتابیں بس چند درسیات اور معروف کتابیں ہی دستیاب ہیں ۔بالخصوص جدید مسائل کے لئے تو اب تک الماریاں ہی نہیں بنی ہیں تو کتابوں کاتصور کہاں سے آسکتا ہے۔جس کا نتیجہ دیکھنے کو ملتا ہےکہ اچھی صلاحیت کے حامل اساتذہ و مدرسین بھی رفتہ رفتہ کتابوں اور مطالعوں کی دنیا سے کٹ جاتےہیں اور ان کی صلاحیتوں کو دیمک لگ جاتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ بہار کی سغرزمین علم خور ہے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔
کتنے جبال العلوم ایسے گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں کہ ان سے امت کو بہت زیادہ فائدہ ہونا چاہیئے تھا لیکن یہاں گوشہ گمنامی کے شکار ہوجاتے ہیں۔مختلف علوم وفنون میں دسترس او رید طولیٰ کے مالک قدیم و جدید کے ماہر حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اس سلسلہ میں بڑی درد بھری داستان رقم کی ہیں۔ حضرت لکھتے ہیں: “جامعہ عثمانیہ یونیورسیٹی حیدرآباد سے سبکدوشی کے بعد بس اب گمنام زمانہ بن چکاہوں، جہاں نہ اسباب ہیں اور نا ہی وسائل”
ذرا غور تو کریں اتنے بڑے علامہ کس کا شکوہ کر رہے ہیں۔ اس لئے ذمہ داران مدارس کو چاہیئے کہ اس کی طرف پوری توجہ کریں تاکہ آپ کے یہاں جو لعل و گوہر ہیں، ان کی صلاحیتیں برباد ہونے کے بجائے تناور ہوں، اور اس کے لئے کہ کتابوں کی دستابی اولین شرط ہے، کیونکہ کتابوں کی موجودگی ہی مطالعہ اور کتب بینی کی طرف رغبت دلاتی ہے۔اس سلسلہ میں بہار کا علاقہ مگدھ ہو یا متھلانچل یا پھر سیمانچل تقریبا سبھی ایک ہی صف کے محمود و ایاز ہیں۔اس وقت بہت ہی سنہرا موقع ہے کہ اکیـڈمی کی ساری مطبوعات احاطہ جامعہ میں ایفا بک اسٹال میں سج دھج کر آپ جیسے علم دوست حضرات کی طرف نگاہ وارفتگی سے منتظر ہیں۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہےکہ کتابوں کی حصولیابی کی ہر ممکن کوشش کریں، تاکہ تشنگان علوم نبویہ سیراب ہوں، کیونکہ مطالعہ ہی روح کی غذاء ہے، اور کتابیں اس کے لئے اساس ہیں۔اللہم وفقناووفقہم احس التوفیق۔
از: قاضی محمد حسن ندوی
استاذ حدیث وفقہ دار العلوم ماٹلی والا بھروچ