بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سلسلۂ محاضرات بعنوان:
مطلقہ کا نفقہ طلاق دینے والے شوہر پر؟
(انصاف اور عقل کا تقاضا کیا ہے؟ اور معاشرہ کی مصلحت کیا کہتی ہے؟)
محاضر: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ
قانون فطرت: اسلام اور مغرب کا فرق
قانون فطرت کی پاسداری ضروری ہے، آگ کی فطرت ہے، پانی کی اپنی فطرت ہے، اس سے اسے نکالا نہیں جاسکتا۔ اسلام دین فطرت ہے، فطرة الله التي فطر الناس عليها… اسلام نے شہوانی ضرورت کی تکمیل کے لیے نکاح کے طریقہ کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ یہ فطرت ہے۔ مغرب فطرت کا لحاظ نہیں کرتا ہے، وہ آزادی کو اور انارکی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے؛ چنانچہ اگر کوئی لڑکا لڑکی بننا چاہے تو وہ اسے نہیں روکتا، اسی طرح اگر کوئی لڑکی لڑکا بننا چاہے تو وہ اسے نہیں روکتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ فرق ہے اسلام اور مغرب میں۔ اسلام فطرت کی رعایت کرتا ہے اور مغرب خواہش اور شہوت کو ہی اہمیت دیتا ہے۔ یہ فرق زندگی کے ہر موڑ پہ دکھائی دیتا ہے۔ تجارت میں سود اسی کی مثال ہے۔ اسلام اسے مسترد کرتا ہے اور مغرب اس کو لازمی قرار دیتا ہے۔
مطلقہ عورت کا نفقہ کس پر؟
دیکھیے نفقہ کی حقیقت کیا ہے؟ اولاد کا نفقہ ماں باپ پر ہوتا ہے، جب کہ اولاد غیر مستطیع ہو۔ ماں باپ کا نفقہ اولاد پر ہوتا ہے، جب کہ والدین غیر مستطیع ہوں۔ نفقہ میں سب سے زیادہ تاکید بیوی کے نفقہ پر ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ مالدار ہے یا نہیں۔ بیوی کا نفقہ شوہر پر بہر صورت ہے۔ شریعت کی اس حکمت کو سمجھنا چاہیے۔
نفقہ کے تین اسباب:
1- ملکیت: مالک پر جانور کا نفقہ واجب ہوتا ہے۔ باندی اور غلام کا نفقہ آقا پر واجب ہے۔
2- قرابت: یہ فطری رشتہ ہوتا ہے۔ نانیہال اور دادیہال کے ذریعہ یہ رشتے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے نفقہ واجب ہوتا ہے۔
3- حبس: آپ نے اپنے ادارہ میں کسی کو محبوس کر رکھا ہے تو آپ پر نفقہ واجب ہوتا ہے۔ بیوی کا شوہر سے جو تعلق ہے وہ نہ ملکیت کا ہے اور نہ ہی قرابت کا، بلکہ یہ تعلق حبس کا ہے۔ لہذا جب تک وہ محبوس ہے تب تک نفقہ واجب ہے۔ حبس ختم ہونے کے بعد نفقہ واجب نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب اس مطلقہ عورت کا نفقہ کس پر ہے؟ تو اس کا ایک اسلامی حل یہ ہے کہ ماں باپ اور بھائی پر اس کا نفقہ واجب ہے۔ اس کی ترغیب دی جائے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ اس کی دوسری شادی کی فکر کی جائے۔ اسلامی معاشرہ میں یہ عیب نہیں ہے، ہندو سماج اور ان کی تہذیب سے یہ خرابی در آئی ہے کہ نکاح بیوگاں کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اور مولانا قاسم نانوتوی کے کارناموں میں نکاح بیوگاں کو اہم کارنامہ مانا گیا ہے۔ اس وقت بھی اس تحریک کی ضرورت ہے۔
تین طرح کے معاشی حقوق
طلاق کے بعد شوہر پر مطلقہ بیوی کے حوالہ سے درج ذیل تین طرح کے معاشی حقوق ہیں:
1- عدت کا نفقہ 2- رضاعت کی اجرت 3- پرورش کی اجرت
تعزیر بالمال
تعزیز بالمال کی صورت اپناتے ہوئے ایک مناسب رقم شوہر سے مطلقہ بیوی کو تعزیرا دلوائی جائے۔ عصر حاضر میں فقہا نے تعزیر بالمال کی اجازت دی ہے۔ اسلامی حکومت نہیں ہے کہ آپ کوڑے لگوائیں، جیل بھجوائیں۔ یہ وہ شرعی حلول ہیں، جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مطلقہ شوہر سے متعلق نفقہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔
اعتدال کی ضرورت
اعتدال بہت ضروری ہے، پوروپ میں عورتوں کے لیے حقوق کی فراہمی میں اتنا غلو سے کام لیا گیا کہ لوگ شادی سے راہ فرار اختیار کرنے لگے ہیں، میں نے یورپین اقوام کا ڈاٹا جمع کیا تو اندازہ ہوا کہ بعض ممالک میں سنگل فیمیلی کا رجحان عام ہوگیا ہے۔ ایک گھر میں مرد تنہا رہتا ہے اور ایک دوسرے گھر میں عورت تنہا رہتی ہے۔ دونوں نے شادی کے بغیر رہنے کو مجبورا اختیار کیا ہوا ہے۔ نکاح یا طلاق کو مشکل تر بنا دینا بہت خطرناک ہوگا۔ اس لیے شریعت پر عمل کرنا ہی سب سے پائیدار حل ہے۔
اللہ تعالی اس کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین یا رب العالمین، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین!
ترتیب و پیشکش:
مسعود عالم ندوی
(ڈائریکٹر: دار البحث والاعلام، لکھنؤ)
29/10/2024