رجم کی سزا قرآن مجید سے ثابت ہے ؟ یا احادیث متواترہ سے ،یا یہ تورات کا حکم ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا ہے ؟
قسط :(2)
رجم کی سزا قرآن مجید سے ثابت ہے ؟ یا احادیث متواترہ سے ،یا یہ تورات کا حکم ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا ہے ؟
از: قاضی محمد حسن ندوی مدھوبنی
استاذ حدیث وفقہ: دار العلوم ماٹلی والا بھروچ
تیسرا قول اور اس کی دلیل
حضرت علی کا نقطئہ نظر یہ ہے کہ رجم کے سلسلہ میں قرآن کریم میں کوئی آیت نہیں ، ہاں البتہ جلد کا حکم قرآن مجید میں موجود ہے، جہاں تک کہ رجم کی سزا کے ثبوت کا تعلق ہے تو قرآن کریم کی بعض آیت سے اشارۃً رجم کا معنی نمایاں ہوتا ہے جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالیٰ نے لکھا ہے کہ سورہ مائدہ کی اس آیت سے رجم کا معنی مراد ہے ( وکیف یحکمونک وعندھم التوراۃ فیھا حکم اللّٰہ ثم یتولون من بعد ذلک ومااولئک با لمومنین (43) انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی ونوریحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا والربانیون والاحباربما استحفظوا من کتب اللّٰہ وکانوا علیہ شھداء “”””٫٫٫آیت/ 34,44) ان الرجم ھو المراد بآیات سورۃ المائدہ ،نیز مفتی تقی صاحب نے آیت ( فان جاءوک فاحکم بینھم سورہ مائدہ : 43)
میں ( حکم اللّٰہ “” وما انزل اللّٰہ) سے رجم کا معنی مراد لیا ہے ،اور یہ قرآن کریم سے اشارۃً ثابت ہے ،البتہ اس میں صراحۃ نہیں ہے : فلما کان المراد بقولہ تعالیٰ: حکم اللّٰہ)،وماانزل اللّٰہ) الرجم، فانہ ثابت بکتاب اللہ اشارۃً ،وان لم یکن مذکورا فیہ صراحۃ ،( فتح الملہم بشرح صحیح مسلم ج2 ص/361)/
لیکن اس کے علاوہ احادیث متواترہ اور اجماع صحابہ سے رجم کی سزا ثابت ہے ،چنانچہ امام بخاری نے حضرت علی کی حدیث کو نقل کیا ہے : “عن علي رضي الله عنه حين رجم المرأة يوم الجمعة و قال قد رجمتها بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلماخرجه الإمام البخاري ، كتاب المحاربين من اهل الكفر و الردة، باب رجم المحصن،رقم الحديث (6327)
رجم کی سلسلہ میں مسلم شریف میں فرمان نبوی ہے جو حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ مروی ہے: “وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ؛ الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ، جَلْدُ مِائَةٍ، وَالرَّجْمُ “. (رواہ مسلم فی صحیحہ ١٦٩٠, كتاب الحدود, باب حد الزنى, ٨٠٦ص, مكتبة دار قرطبة)
نیز علامہ ابن کثیر کا رجحان یہی ہے کہ رجم کا حکم قرآن سے نہیں بلکہ سنت اور اجماع سے ثابت ہے، چنانچہ انہوں نے حضرت علی کے قول کو اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے: “كَمَا رُوِيَ، عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ لَمَّا أُتِيَ بشُرَاحة(٣٠) وَكَانَتْ قَدْ زَنَتْ وَهِيَ مُحْصَنَةٌ، فَجَلْدَهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَرَجَمَهَا يَوْمَ الْجُمْعَةِ، ثُمَّ قَالَ: جلدتهُا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ”(تفسير ابن كثير ،سورة النور ، الآية ٢)
جیسا کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک عورت لائی گئی جو شادی شدہ تھی، اور اس سے زنا سرزد ہوا تھا تو اس پر جمعرات کے دن کوڑا لگایا اور جمعہ کے دن رجم کیا ،پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا کہ میں نے قرآن مجید کی روشنی میں اس پر کوڑے لگایا ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رجم کیا ،
دوسری حدیث حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے : “حدثنا سلمة بن شبيب، وإسحاق بن منصور، والحسن بن علي الخلال، وغير واحد، قالوا: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن عمر ⦗٣٩⦘ بن الخطاب قال: «إن الله بعث محمدا ﷺ بالحق، وأنزل عليه الكتاب، فكان فيما أنزل عليه آية الرجم، فرجم رسول الله ﷺ ورجمنا بعده، وإني خائف أن يطول بالناس زمان، فيقول قائل: لا نجد الرجم في كتاب الله، فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله، ألا وإن الرجم حق على من زنى إذا أحصن، وقامت البينة، أو كان حمل أو اعتراف» هذا حديث صحيح، وروي من غير وجه، عن عمر (ترمذی شریف:حدیث نمبر/ 1431)
حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے محمد صلی اللہ علیہ کو حق کیسا تھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کچھ کتاب اللہ میں آپ پر نازل ہوا اسمیں آیت رجم بھی ہے ،جس کو ہم نے پڑھا، یا د کیا اور سمجھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیکم نے بھی رجم کیا اور ہم نے آپکے بعد رجم کیا ، اب مجھے یہ خطرہ ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم کتاب اللہ میں نہیں پاتے تو وہ اینے ایک فریضہ کو چھوڑ دینے سے گمراہ ہو جاویں، جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ہم یہ سمجھ لیں کہ رجم کا حکم کتاب اللہ میں حق ہے ،اُس شخص پر جو مردوں اور عورتوں میں سے محصن ہو یعنی شادی شدہ جبکہ اسے زنا پر شرعی شہادت قائم ہو جائے یا حمل اور اعتراف پایا جائے١٤٣١
علامہ ابن ہمام نے بھی بڑی اچھی توجیہ کی ہے، چنانچہ وہ قلم بند کرتے ہیں قَالَ عَلِيٌّ ﵁ فِيمَا ذَكَرْنَاهُ عَنْهُ: إنَّ الرَّجْمَ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَقَالَ: جَلَدْتهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَلَمْ يَنْسُبْهُ إلَى الْقُرْآنِ الْمَنْسُوخِ التِّلَاوَةِ، وَعُرِفَ مِنْ قَوْلِهِ ذَلِكَ أَنَّهُ قَائِلٌ بِعَدَمِ نَسْخِ عُمُومِ الْآيَةِ فَيَكُونُ رَأْيُهُ أَنَّ الرَّجْمَ حُكْمٌ زَائِدٌ فِي حَقِّ الْمُحْصَنِ ثَبَتَ بِالسُّنَّةِ وَهُوَ قَوْلٌ قِيلَ بِهِ، وَيُسْتَدَلُّ لَهُ بِقَوْلِهِ ﵊ «الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَرَجْمٌ بِالْحِجَارَةِ» (فتح القدير ج 5 ص ٢١٧ات (١٤٣٢
ڈاکٹر وھبہ زحیلی کا نظریہ یہ ہے کہ خوارج کے علاوہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ محصن زانی اور مزنیہ کی سزا رجم ہے ، اور یہ سنت متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے ، جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے : ( اتفق العلماء ما عدا الخوارج على أن حد الزاني المحصن هو الرجم، بدليل ما ثبت في السنة المتواترة وإجماع الأمة، والمعقول.الفقه الاسلامي وأدلته ج ٥ ص ٧٨٩ ) مفتی شفیع صاحب نے معارف القرآن میں سورہ نور آیت /2, کے تحت جو لکھا ہے وہ بہت ہی چشم کشا ہے ملاحظہ فرمائیں
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سورہ نور کی آیت مذکورہ میں جو زانیہ اور زانی کی سزا سو کوڑے لگانا مذکور ہے ،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل تشریح و تصریح کی بناپر غیر شادی شدہ لوگوں کے لئے مخصوص ہے ،اور شادی شدہ کی سزا رجم ہے ،یہ تفصیل اگر چہ الفاظ آیت میں مذکور نہیں مگر جس ذات اقدس یہ آیت نازل ہوئی خود ان کی طرف سے ناقابل التباس وضاحت کے ساتھ یہ تفصیل مذکور ہے ،اور صرف زبانی تعلیم و ارشاد نہیں بلکہ متعدد بار اس تفصیل پر عمل بھی صحابہ کرام کے مجمع کے سامنے ثابت اور یہ ثبوت ہم تک تواتر کے ذریعہ پہنچا ہوا ہے ، اس لئے شادی شدہ مرد و عورت پر سزائے رجم کا حکم درحقیقت کتاب اللہ ہی کا حکم اور اسی ہی کی طرح قطعی اور یقینی ہے ( معارف القرآن سورہ نور جلد 6)
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ العالیٰ کی رائے یہی ہے کہ اس کا حکم قرآن سے نہیں بلکہ اس کا ثبوت احادیث متواترہ اور اجماع صحابہ سے ہے،جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب قاموس الفقہ قلم بند کیا ہے : “شادى شده زاني کے لئے رجم كي سزا ایک اجماعی مسئلہ ہے جس کی بابت کثرت سے پیغمبر علیہ السلام کی قولی اور فعلی احادیث ہیں جو تواتر کے درجہ کو پہنچی ہیں اسی لئے سوائے خوارج کے اس مسئلہ میں کہیں اور اختلاف نظر نہیں آتا”(قاموس الفقہ ج 3 ص (4
ترجیح اور وجہ ترجیح
مذکورہ بالا بحث و تحقیق سے یہ بات واشگاف ہوگئی کہ رجم کی سزا کے سلسلہ میں علماء کے تین اقوال ہیں ، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ان میں سے کون سا قول زیادہ راجح ہے؟ تو اس سلسلہ میں راقم الحروف کے نزدیک تیسرا قول زیادہ راجح ہے ،وہ یہ ہے کہ رجم کی سزا احادیث متواترہ اور اجماع سے ثابت ہے ، وجہ ترجیح کی دلیل درج ذیل ہیں ،چنا نچہ علامہ کاسانی نے لکھا ہے کہ جب زانی اور مزنیہ کا جرم بینہ یا اقرار سے ثابت ہو جائے تو اس کو رجم کیا جائے گا اور یہ سزا حدیث مشہورہ سے ثابت ہے ، ٫ثم اذا ظهر احصان الزاني بالبنية أو الإقرار يرجم بالنص والمعقول.أما النص فالحديث المشهور وهو قوله عليه الصلاة والسلام: لا يحل دم امرإ مسلم الا باحدي معان ثلاث : كفر بعد إيمان و زنا بعد احصان و قتل نفس بغير حق ، و روي أنه عليه الصلاة والسلام رجم ماعزا و كان محصنا ..” (البدائع الصنائع كتاب الحدود ج:٥ ، ص: ٤٩٥)
ڈاکٹر وھبہ زحیلی نے بھی تحریر کیا ہے یہ مسئلہ خوارج کے علاوہ سبھوں کے یہاں حدیث متواتر اور اجماع امت سے ثابت ہے 🙁 اتفق العلماء ما عدا الخوارج على أن حد الزاني المحصن هو الرجم، بدليل ما ثبت في السنة المتواترة وإجماع الأمة، والمعقول.الفقه الاسلامي وأدلته ج ٥ ص ٧٨٩ )
اسی طرح شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کی توجیہات سے اس کی تائید و توثیق ہوتی ہے چنانچہ آپ تکملہ فتح الملہم بشرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں: “قولہ ( مانجد الرجم فی کتاب اللہ) یعنی صریحاً ،والا فقد ثبت بالاحادیث الصحیحۃ” (360/2)
دوسری جگہ پر مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ محصن کی سزا رجم ہے ،اس پر امت کا اجماع ہے ،( ثم ان وجوب الرجم علی المحصن کلمۃ اجماع فیما بین المسلمین ،ولم یخالف فیہ احد من العلماء الذین یعتد بخلافھم الا ما حکی عن بعض الازارقہ من الخوارج ( تکملہ فتح الملہم بشرح صحیح مسلم, ج2/361،مکتبہ الاشرفیہ دیوبند) واللہ اعلم باالصواب