رجم کی سزا قرآن مجید سے ثابت ہے ؟ یا احادیث متواترہ سے ،یا یہ تورات کا حکم ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا ہے ؟
از : محمد حسن ندوی مدھوبنی
استاذ حدیث وفقہ دار العلوم ماٹلی والا بھروچ
چند ہفتے قبل ترمذی شریف کتاب الحدود کے سبق کے دوران رجم کی سزا سے متعلق دو تین احادیث گزریں ،یکایک دل میں ایک سوال پیدا ہوا کہ رجم کی سزا قرآن مجید سے ثابت ہے یا احادیث نبویہ سے ؟ اس کی تحقیق کیجائے ،عام طور پر اہل علم کے مابین یہ بات مشہور ہے کہ ( الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما البتۃ) یہ آیت رجم ہے ،جو پہلے قرآن کا حصہ تھی ،پھر بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ،اس لئے عاجز نے اس مسئلہ کو قرآن کریم ،تفاسیر،احادیث، محدثین اور فقہاء کے اقوال و توجیہات کی روشنی میں سمجھنے اور تنقیح کرنے کی کوشش کی ،اور اس پہلو سے کتابیں دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ رجم کی سزا کے سلسلہ میں دراصل صحابہ کرام ،محدثین اور فقہاء کا اختلاف ہے،اور مجموعی اعتبار سے اس باب میں تین اقوال ہیں( 1)
ایک قول یہ ہے کہ رجم کی سزا قرآن کریم سے ثابت ہے ،اور پہلے ایک آیت قرآن مجید میں نازل ہوئی تھی ،اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی ،البتہ اس کا حکم اب بھی باقی ہے( 2)
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ تورات کا حکم ہے یا بنی اسرائیل کی کسی کتاب کا حصہ ہے ،جسے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا ہے ،(3)
اور تیسرا قول یہ ہے کہ رجم کی سزا احادیث نبویہ اور اجماع سے ثابت ہے ،
بہرحال یہاں تینوں اقوال کے سلسلہ میں دلائل پیش کرنے سے قبل کچھ ضروری باتیں زیب قرطاس کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے،
پہلی بات یہ ہے کہ اہل علم پر مخفی نہیں کہ شریعت مطہرہ میں جرم کی سزا اس کی سنگینی کے اعتبار سے متعین ہے،مثلا زنا،چوری ،قذف،اور شرب خمر یہ سب نہ صرف سنگین اور پر خطر ہیں ،بلکہ صالح معاشرے کے لیے ناسور ہیں،اسی لیے جرائم کے ثبوت کی شرطیں بھی زیادہ ہیں ،اور ثبوت کے بعد سبھوں کی سزا بہت سخت طے کی گئی ہے ،اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ حدود و قصاص جہاں پورے طور پر نافذ ہوتے ہے، وہاں بہت حد تک امن و امان کی فضا قائم ہو جاتی ہے ، مقاصد شریعتِ یعنی بنو آدم کی جان ومال عزت و آبرو کا احترام اور پاس و لحاظ اور اس کا داعیہ زیادہ ہی ہو جاتا ہے ،اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ ایسی جگہوں پر حدود و قصاص ( ولکم فی القصاص حیاۃ یااولی الالباب) کا اثر اور فائیدہ ظاہر ہونے لگتا ہے،اس وقت دنیا میں کچھ مسلم ملک ہیں ،جہاں پورے طور پر تو نہیں البتہ وہاں کچھ حد تک قوانین اسلام کا نفاذ ہوتا ہے ،تواس کا فائیدہ جگ ظاہر ہے، وہاں نہ صرف جرائم کم ہوتے ،بلکہ جرائم اور اہل جرائم پر قدغن لگ جاتا ہے ،واقعی یہ حدود و قصاص کی نفاذ کا مظہر ہے
دوسری بات یہ ہے سزا کی دو قسمیں ہیں ،ایک وہ سزا ہے جو قرآن مجید اور احادیث نبویہ یا اجماع صحابہ سے متعین ہے ،اس کو شریعت کی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں ،جیسے حد زنا ،حد سرقہ ،حد قذف، حد ۔شرب خمر وغیرہ ،
دوسری وہ سزا ہے جو قرآن وحدیث اور اجماع سے متعین نہیں ،بلکہ وہ قاضی یا امیر کی صواب دید پر موقوف رہتی ہے ،شریعت کی اصطلاح میں ایسی سزا کو تعزیر کہتے ہیں ، مثلاً کسی جرم پر قید و حبس کا حکم دینا،،گوش مالی کرنا،ڈانٹنا،اور حدود شرعی سے کم کسی مجرم پر کوڑے لگانے کا حکم دینا وغیرہ
تیسری بات یہ ہے کہ غیر محصن یعنی اگر زانی غیر شادی شدہ ہے تو اس کی سزا جلد ہے یعنی اس کو سو کوڑے مارنے کا حکم ہے،اور اس پہلو سے کسی کا اختلاف نہیں ،کیوں کہ یہ سزا نہ صرف حدیث و اجماع سے ثابت ہے بلکہ قرآن مجید سے ثابت ہے ،جس کا حکم اور تلاوت دونوں باقی ہے ارشاد ربانی ہے الزانیۃ والزانی فاجلدو ا کل واحد منھما مآۃ جلدہ۔( سورہ نور /2)( زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد( دونوں کا حکم یہ ہے کہ) ان میں سے ہر ایک کو سو،دڑےمارو)
چوتھی بات یہ ہے کہ محصن کی سزا رجم ہے لیکن کیا یہ قرآن مجید کی آیت سے ثابت ہے ؟ اس پہلو سے یہ بات متفق علیہ ہے کہ اگر زانی اور مزنیہ محصن ہے( یعنی شادی شدہ ہے) تو اس کی سزا رجم ہے ،مگر یہ سزا آیا قرآن پاک سے ثابت ہے یا نہیں ؟ اس جہت سے صحابہ کرام سے دوا قوال ہیں ،ایک قول یہ ہے کہ اس کا حکم قرآن مجید سے ثابت ہے ،قرآن کریم میں پہلے ایک آیت تھی ،بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی ،مگر اس کا حکم اب بھی باقی ہے ،یہ قول حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کا ہے ،
دوسرا قول یہ ہے کہ رجم کی سزا کے تعلق سے قرآن کریم میں کوئی آیت صراحۃ نہیں ،بعض آیات سے اشارۃ معلوم ہوتا ہے ،نیز اس کا حکم احادیث نبویہ اور اجماع صحابہ سے ثابت ہے ،یہ رائے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہے،
جہاں تک کہ دلائل کا تعلق ہے تو دونوں سے متعلق احادیث ذیل میں پیش کی جارہی ہیں
پہلے قول کی دلیل
بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما سے ایک روایت ہے، جس میں حضرت عمر نے رجم کی آیت قرآن مجید میں ہونے کا اظہار کیا ہے کہ پہلے یہ آیت تھی ،بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی ،لیکن اس کا حکم اب بھی باقی ہے ،چنانچہ امام بخاری نے حضرت ابن عباس کی سند سے حضرت عمر فاروق کے خطبہ کو نقل کیا ہے ،وہ حدیث درجہ ذیل ہے فإن الله -عز وجل- قد أمر بالرجم، وأنزل فيه آية قرآنية كانت تتلى على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لفترة من الزمن، ثم نسخ لفظها وبقي حكمها, ووجوب العمل بها ماض إلى يوم القيامة، وقد ثبت عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما ـ قال: قال عمر: إن الله قد بعث محمدا -صلى الله عليه وسلم- بالحق, وأنزل عليه الكتاب, فكان مما أنزل عليه: آية الرجم. قرأناها. ووعيناها, وعقلناها، فرجم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ورجمنا بعده، فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل: ما نجد الرجم في كتاب الله! فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله، وإن الرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو كان الحبل أو الاعتراف، وقد قرأتها: الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة، نكالا من الله، والله عزيز حكيم. متفق عليه ( مسلم شریف :کتاب الحدود باب رجم الثیب فی الزنا حدیث نمبر 1691, بخاری شریف کتاب المحاربین من اھل الجفر والردۃ ،باب الاعتراف بالزنا ،حدیث نمبر 6829)
یقیناً اللہ تعالیٰ نے رجم کا حکم دیا ہے ،اس کے لیے ایک آیت قرآن مجید میں نازل فرمائی ہے ،جو عہد رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ایک زمانے تک قرآن کریم کا ایک حصہ تھی ،پھر آیت منسوخ ہوگئی لیکن اس کا حکم باقی ہے ،اور قیامت تک اس پر عمل کرنا ضروری ہے ،یہ روایت حضرت ابن عباس سے ثابت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے محمد صلی اللہ علیہ کو حق کیسا تھ بھیجا ہے اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کچھ کتاب اللہ میں آپ پر نازل ہوا اسمیں آیت رجم بھی ہے ،جس کو ہم نے پڑھا، یا د کیا اور سمجھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیکم نے بھی رجم کیا اور ہم نے آپکے بعد رجم کیا ، اب مجھے یہ خطرہ ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم کتاب اللہ میں نہیں پاتے تو وہ ایک اینی فریضہ چھوڑ دینے سے گمراہ ہو جاویں جو اللہ اللہ نے نازل کیا ہے اور ہم یہ سمجھ لیں کہ رجم کا حکم کتاب اللہ میں حق ہے اُس شخص پر جو مردوں اور عورتوں میں سے محصن ہو یعنی شادی شدہ جبکہ اسے زنا پر شرعی شہادت قائم ہو جائے یا حمل اور اعتراف پایا جائے١٤٣١
اس پہلو سے تھوڑے فرق کے ساتھ دو احادیث ترمذی شریف میں بھی ہیں ،ایک حدیث حضرت ابن عباس سے ہے اور دوسری حضرت سعید بن المسیب سے،،دونوں سے یہ معنی مترشح ہوتا کہ رجم کا ثبوت قرآن کریم سے ہے ،البتہ آیت منسوخ ہوچکی ہے ،لیکن ہاں! اس کا حکم اب بھی باقی ہے ،بہرحال ترمذی شریف کی دونوں احادیث نیچے ترجمہ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں
١٤٣٢ – حدثنا سلمة بن شبيب، وإسحاق بن منصور، والحسن بن علي الخلال، وغير واحد، قالوا: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن عمر ⦗٣٩⦘ بن الخطاب قال: «إن الله بعث محمدا ﷺ بالحق، وأنزل عليه الكتاب، فكان فيما أنزل عليه آية الرجم، فرجم رسول الله ﷺ ورجمنا بعده، وإني خائف أن يطول بالناس زمان، فيقول قائل: لا نجد الرجم في كتاب الله، فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله، ألا وإن الرجم حق على من زنى إذا أحصن، وقامت البينة، أو كان حمل أو اعتراف» هذا حديث صحيح، وروي من غير وجه، عن عمر (ترمذی شریف:حدیث نمبر/ 1431) حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے محمد صلی اللہ علیہ کو حق کیسا تھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کچھ کتاب اللہ میں آپ پر نازل ہوا اسمیں آیت رجم بھی ہے ،جس کو ہم نے پڑھا، یا د کیا اور سمجھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیکم نے بھی رجم کیا اور ہم نے آپکے بعد رجم کیا ، اب مجھے یہ خطرہ ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم کتاب اللہ میں نہیں پاتے تو وہ اینے ایک فریضہ کو چھوڑ دینے سے گمراہ ہو جاویں، جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ہم یہ سمجھ لیں کہ رجم کا حکم کتاب اللہ میں حق ہے ،اُس شخص پر جو مردوں اور عورتوں میں سے محصن ہو یعنی شادی شدہ جبکہ اسے زنا پر شرعی شہادت قائم ہو جائے یا حمل اور اعتراف پایا جائے١٤٣١ –
حدثنا أحمد بن منيع قال: حدثنا إسحاق بن يوسف الأزرق، عن داود بن أبي هند، عن سعيد بن المسيب، عن عمر بن الخطاب قال: «رجم رسول الله ﷺ، ورجم أبو بكر، ورجمت»، ولولا أني أكره أن أزيد في كتاب الله لكتبته في المصحف، فإني قد خشيت أن تجيء أقوام فلا يجدونه في كتاب الله فيكفرون به وفي الباب عن علي: حديث عمر حديث حسن صحيح، وروي من غير وجه عن عمر، یہ حدیث( جامع ترمذی حدیث نمبر: 1431)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”رسول اللہ ﷺ نے رجم (سنگسار) کیا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی رجم کیا، اور میں نے بھی رجم کیا۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گےکہ میں نے قرآن میں اضافہ کر دیا ہے، تو میں اسے مصحف (قرآن) میں لکھ دیتا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسے لوگ نہ آئیں جو اسے قرآن میں نہ پا کر اس کا انکار کریں اور کفر اختیار کر لیں۔”
اور اسی طرح علامہ ابن کثیر نسائی شریف کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ رجم کی آیت قرآن مجید میں تھی ،پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ کردیا
حضرت عمر کے قول کی توجیہ و تشریح
علامہ عینی علامہ طیبی کے حوالے سے اپنی کتاب عمدۃ القاری شرح البخاری میں حضرت عمر کے قول کی توجیہ اور تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ہیں:
-قوله: إن الله بعث محمد قال الطيبي: قدم عمر رضي الله تعالى عنه، هذا الكلام قبل ما أراد أن يقول توطئة له ليتيقظ السامع لما يقول. قوله: آية الرجم مرفوع لأنه اسم كان، وخبره هو قوله: مما أنزل الله مقدما وكلمة: من للتبعيض وآية الرجم هي قوله: الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما وهو قرآن نسخت تلاوته دون حكمه. قوله: مما أنزل الله وفي رواية الكشميهني: فيما أنزل الله. قوله: ووعيناها أي: حفظناها. قوله: رجم رسول الله ﷺ وفي رواية الإسماعيلي: ورجم، بزيادة الواو. قوله: إن طال بكسر الهمزة. قوله: أن يقول بفتح الهمزة. قوله: بترك فريضة أنزلها الله أي: في الآية المذكورة التي نسخت تلاوتها وبقي حكمها، وقد وقع ما خشيه عمر رضي الله تعالى عنه، فإن طائفة من الخوارج أنكروا الرجم، وكذا بعض المعتزلة أنكروه. قوله: والرجم في كتاب الله حق أي: في قوله تعالى: النساء:(عمدة القاري ج ٩ ص ٢٤)
اسی طرح امام نسائی نے بھی تحریر کیاہے کہ آیت رجم قرآن مجید میں تھی ،پھر اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی تاہم اس کا حکم اور اس پر عمل باقی ہے و رواه النسائي من حديث مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى عَنْ غُنْدَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ بِهِ، وَهَذِهِ طُرُقٌ كُلُّهَا مُتَعَدِّدَةٌ وَدَالَّةٌ عَلَى أَنَّ آيَةَ الرَّجْمِ كَانَتْ مَكْتُوبَةً فَنُسِخَ تِلَاوَتُهَا وبقي حكمها معمولا به، والله( سنن کبریٰ حدیث نمبر 7145, نسخ الجلد عن الثیب)
نیز سنن ابو داود کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:وایم اللّٰہ لولا ان یقول الناس زاد عمر فی کتاب اللہ لکتبتھا ’’اللہ کی قسم! اگر لوگ یہ نہ کہیں کہ عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کردیاتو میں اسے لکھ دیتا‘‘۔ (سنن ابو داود ، رقم الحدیث: 4418 )
اس بنا پر علمائے اصول نے لکھا ہے کہ رجم کی آیت کی صرف تلاوت منسوخ ہے، اس کا حکم برقرار ہے۔ وَالنَّسْخُ قَدْ یَکُوْنُ فِي التِّلَاَوَة مَعَ بَقَاءِ الْحُکُم”. (أحكام القرآن للجصاص: ١/ ٦٧)
الغرض حضرت عمر کے قول ،خطبہ عمر اور محدثین کی توجیہ و تشریح ( جو اوپر ذکر کی گئی) سے یہ بات واشگاف ہوگئ کہ رجم کی سزا کے سلسلہ میں قرآن مجید میں پہلے جو آیت تھی بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی لیکن اس کا حکم اب بھی باقی ہے یعنی محصن کی سزا رجم ہے آیت رجم سے کون سی آیت مراد ہے؟ البتہ یہاں اس پہلو سے محدثین اور فقہاء کے مابین اختلاف ہے کہ آیت رجم سے کون سی آیت مراد ہے ؟
چنانچہ علامہ بزدوی،نبووی اور اصولیین میں سے صاحب محرر اور مولانا عبیداللہ الاسعدی نے آیت رجم کی تعیین کی ہے
علامہ بزدوی نے ( الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما البتۃ) کو آیۃ الرجم تسلیم کیا ہے ، وہ رقم طراز ہیں کہ حضرت عمر نے قوم کی گمراہی سے بچانے کی خاطر حاشیہ پر جس آیت کو لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ،وہ ( الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما البتۃ) ہے(إلانا أنا قد روينا عن عمر) ﵁ بضم الراء على بناء المفعول- (أن الرجم كان مما يتلى) في القرآن على ما قال: لولا أن الناس يقولون إن عمر زاد في كتاب الله لكتبت على حاشية المصحف: «الشيخ والشيخۃ إذا زنيا فارجموهما البتة” (الكتاب: الكافي شرح [أصول] البزودي(١٥٣١/٣)كتاب السنةباب تقسيم الناسخالناشر: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع)
علامہ سرخسی کی رائے یہی ہے کہ آیۃ الرجم : الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما البتۃ) ہے۔ فقد ثبت بروایۃ عمر ان الرجل مما کان یتلی فی القرآن علی ما قال لولا ان الناس یقولون ان عمر زاد فی کتاب اللہ لکتبت علی حاشیۃ المصحف : الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما البتۃ الحدیث ،فانما کان ھذا نسخ الکتاب بالکتاب، (المحرر فی اصول الفقہ ج 2 ص: 55 مکتبہ تھانوی دیوبند)
اسی طرح علامہ نووی نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے ( الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما البتۃ) والی عبارت کوآیۃ الرجم قرار دیا ہے کہ یہ پہلے آیت تھی پھر بعد میں منسوخ ہوگئی ،لیکن اس کا حکم اب بھی باقی ہے:
قَوْلُهُ (فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ قَرَأْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا) أَرَادَ بِآيَةِ الرَّجْمِ الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ وَهَذَا مِمَّا نُسِخَ لَفْظُهُ وَبَقِيَ حُكْمُهُ وَقَدْ وَقَعَ نَسْخُ حُكْمٍ دُونَ اللَّفْظِ (شرح النووي ج ١١ ص ١٩٢)
حضرت مولانا عبیداللہ الاسعدی صاحب نے بھی آیت
رجم ( الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما البتۃ کو قرار دیا ہے جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے نسخ التلاوۃ دون الحکم : مثل الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما نکالا من اللہ الخ( الموجز فی اصول الفقہ مع معجم اصول الفقہ ص/200 مکتبہ دار السلام)
اسی طرح علوم الحدیث اور اس کے متعلقات میں علم ناسخ ومنسوخ کے عنوان سے منسوخ التلاوۃ دون الحکم کے تحت مذکور ہے اس قسم کی سب سے مشہور مثال جسے صرف حنفیہ ہی نہیں بلکہ شوافع اور حنابلہ نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے وہ ہے:( الشیخ والشیخۃ اذ ا زنیا فارجموھما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم)(254)
(2)
دوسرا ا قول یہ ہے کہ آیۃ الرجم قرآن کا حصہ نہیں بلکہ یہ تورات کا حصہ ہے ،یا بنی اسرائیل کی کسی اور کتاب کا جز ہے،مگر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کو برقرار رکھا ہے ،اور مجازاً اس کو نزول سے تعبیر کیا ،حقیقت میں وہ کوئی قرآن مجید کی آیت نہیں ،یہی رجحان شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کا ہے ،وہ اپنی کتاب تکملہ فتح الملہم میں رقم طراز ہیں :ں
قال العبد الضعيف عفا الله عنه أن المشهور فيما بين الناس أن آية الرجم نسخت تلاوتها و بقي حكمها ، ولكن الذي يظهر بعد تتبع الروايات في هذا الباب أنها لم تكن قرآنا قط، وانما كانت آية من آيات التوراة أو أحد كتب بني إسرائيل ، ولما اقر الله تعالى حكمها لهذه الأمة أطلق عليها لفظ النزول مجازا ، وليس المراد أنها نزلت كآية للقرآن، وانما المراد أنه نزل الحكم بإقرار حكمها.تكملة فتح الملهم ج ٢ ، ص ٣٥٨
تھوڑے فرق کے ساتھ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس بات کی توثیق اپنی دوسری کتاب درس ترمذی میں کی ہے لیکن تحقیق کے بعد جو بات مجھے معلوم ہوتی ہے ،وہ یہ کہ یہ آیت رجم قرآن کریم کا حصہ کبھی نہیں رہی،بلکہ درحقیقت یہ تورات کی آیت تھی ،لیکن جب حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس رجم کا حکم آیا تو تورات کی اس آیت کے حکم کو امت محمدیہ کے لیے بھی باقی رکھا گیا ،اور بذریعہ وحی آپ کو بتایا گیا کہ یہ تورات کی آیت ہے اور اس کا حکم آپ کی امت کے لئے بھی باقی ہے ،اسی وجہ سے یہ آیت کبھی بھی قرآن کے طور پر نہیں لکھی گئی ،( درس ترمذی 5/80)جیسا کہ اس کی توجیہ کرتے ہوئے مفتی تقی صاحب نے ذیل میں مزید لکھا ہے ،،اما کونھا آیۃ من آیات التوراۃ فیدل علیہ ما اخرجہ ابن جریر فی تفسیر المائدہ ( 6:151) عنہ جابر بن زید من قصۃ رجم الیھود ،ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخبار بان اعلم الیہود عبد اللہ بن صوریا الاعور،فدعاہ ،فقال : انت اعلمھم بالتوراۃ ؟ قال کذلک تزعم یھود ،فقال کہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم انشدک باللہ ،وبالتوراۃالتی انزلھا علی موسیٰ یوم سیناء،ماتجد فی التوراۃ فی الزانیین ؟ “””٫” قال یا ابا القاسم! الشیخ والشیخۃ اذان زنیا فارجموھما البتۃ ،فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فھو ذاک الخ فھذہ الروایہ صریحۃ فی ان ھذہ الآیۃ قراھا عبداللہ بن صوریا الیھودی کآیۃ من التوراۃ وصدقہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی ذلک،واقر حکمھا الخ( تکملہ فتح الملہم بشرح صحیح مسلم : ج2/358: مکتبہ اشرفیہ دیوبند) مذکورہ عبارت میں ابن جریر طبری نے حضرت جابر بن زید سے یھودکے رجم کے قصہ کو جس طرح تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیۃ الرجم کو آیات توراۃ میں شامل کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی تصدیق کرنا یہ اس بات پر دال ہے کہ آیۃ الرجم قرآن مجید کا حصہ نہیں بلکہ یہ تورات کا حصہ ہے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو برقرار رکھا ہے
(جاری)
click here ⬇️ and read next part……..! 〽️
رجم اور دلائلِ رجم : ایک مطالعہ (قسط) ( 2)