از : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی🖋
ایک اہم واقعہ غزوۂ بنو مصطلق کے نام سے آیاہے ،بنو مصطلق قبیلۂ بنو خزاعہ کی ایک شاخ تھی ، یہ ’ مریسیع ‘ نامی مقام پر آباد تھے ، جو مدینہ منورہ سے نو منزل کے فاصلہ پر واقع تھا ، حارث بن ابی ضرار اس قبیلہ کی قیادت کرتا تھا ، صلح حدیبیہ سے پہلے کا واقعہ ہے کہ اس قبیلہ نے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ، آپ ﷺ کو اس کی اطلاع ہوگئی ، آپ ﷺ نے مزید تحقیق کے لئے اپنے ایک نمائندہ کو بھیجا ، انھوں نے یہاں آکر تحقیق حال کیا اور اس خبر کی تصدیق ہوئی ، اس پس منظر میں یہ بات ضروری محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کو اس قریبی دشمن سے محفوظ رکھا جائے اور حملہ کرکے ان کو مطیع بنایا جائے ؛ چنانچہ مدینہ منورہ سے ایک فوج روانہ ہوئی ، آپ ﷺ بنفس نفیس اس میں شریک تھے ۔
قبیلہ کے اکثر لوگوں کو تو مجاہدین کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور انھوں نے راہِ فرار اختیار کی ، مگر کچھ تیر اندازوں نے جم کر تیر برسائے ، بہت سے لوگ قید ہوئے ، ان ہی قیدیوں میں حضرت جویریہؓ بھی تھیں ، جو قبیلہ کے سردار حارث کی بیٹی تھیں ، ان کے مقام و مرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے خود ان کی خواہش پر حضور ﷺ انھیں اپنے نکاح میں لے آئے اور اس طرح یہ سعادت بخش اسیری نے انھیں ’’ اُم المومنین ‘‘ ہونے کا شرف بخشا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ ؓ نے دفعتاً تمام اسیرانِ جنگ کو آزاد کردیا ، کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے سسرالی اعزہ کو کیوں کر اپنا غلام وباندی بناکر رکھ سکتے ہیں ؟ اور بالآخر یہی واقعہ اس قبیلہ کے قبول اسلام کا باعث ہوا ۔
اس غزوہ کا ایک سبق آموز پہلو یہ ہے کہ جن منافقین نے غزوۂ اُحد جیسے نازک موقعہ پر مسلمانوں کو اپنی پیٹھ دکھائی تھی ، مخالف فوج کی کمزوری اور تعداد کی کمی کو دیکھتے ہوئے اور مالِ غنیمت کی طمع میں وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوگئے ، ایک جگہ جب لوگوں نے پڑاؤ کیا ، تو پانی لینے کے مسئلہ پر حضرت عمر ؓ کے غلام اور ایک انصاری میں معمولی سی لڑائی ہوگئی ، حضرت عمر ؓکے غلام نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو آواز دی، انصاری نے انصار کو پکارا ، دونوں طرف سے لوگ جمع ہوگئے ، منافقین کا سردار عبداﷲ بن ابی ایسے موقع کی تاک میں رہتا تھا ، اس نے اس واقعہ کو اور بھی شہ دیا ، اور انصار سے کہا کہ یہ سب تمہارا اپنا کیا ہوا ہے ، تم نے مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دی ، ان کو سہولتیں پہنچائیں اور اب ان کی جرأتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں ! —
مہاجرین کے ساتھ تمہاری مثال عربی زبان کے اس محاورہ کی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو — کہ وہ تم ہی کو کاٹ کھائے ، ’’ سمن کلبک یأکلک ‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ وقتی طور پر مہاجرین اور انصار کے درمیان ایک طرح کی دل شکستگی پیدا ہوگئی ، انصار چوں کہ عبدﷲ بن ابی کے نفاق ، اسلام ، پیغمبر اسلام اور اُمت ِمسلمہ سے اس کی خفیہ عداوت اور اندرونی عناد سے واقف نہیں تھے ، اس لئے سادہ لوح لوگ اس کی چال کو سمجھ نہیں سکے ، عبداﷲ بن ابی نے یہ بھی کہا کہ اب مدینہ سے باعزت لوگ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کریں گے ۔
ایک نو عمر انصاری صحابی — جو اس کی ان زہرناک باتوں کو سن رہے تھے — نے حضور ﷺ سے پوری صورتِ حال بیان فرمائی ، آپ ﷺنے انصار و مہاجرین کو سمجھایا اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور ابھی سے تم عصبیت ِجاہلیہ کی بات کرنے لگے ہو ، پھر آپ ﷺنے فوج کو فوراً کوچ کرنے کا حکم دیا ، حضرت عمر ؓ کو جب واقعہ کی اطلاع ہوئی تو حضور ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ کسی کو حکم دیا جائے کہ اس منافق کی گردن اُتار لائے ، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : کیا تم چاہتے ہوکہ لوگ کہیں کہ محمد ﷺ خود اپنے رفقاء کو بھی قتل کرانے لگے ہیں ؟ یعنی لوگ عبداﷲ بن ابی کے نفاق سے واقف نہیں ہیں ، اگر ان کے قتل کا حکم دیا گیا تو لوگ سمجھیں گے کہ پیغمبر اسلام ﷺ اب خود اپنے اصحاب کے قتل کا حکم دے رہے ہیں ، حضرت عمر ؓ خاموش ہوگئے ۔فوج نے کوچ کیا ، معمولِ مبارک یہ تھا کہ صبح کو سفر شروع ہوتاتو شام میں کہیں پڑاؤ کیا جاتا اور رات بھر آرام کرنے کے بعد صبح میں دوبارہ سفر شروع کیا جاتا اور شام میں سفر شروع ہوتا تورات بھر سفر کرکے صبح دم کسی منزل پر توقف کیا جاتا ؛ لیکن خلافِ معمول آج دن بھر اوررات بھر سفر جاری رہا ، پھر اگلی صبح بھی پڑاؤ نہیں کیا گیا ، یہاں تک کہ دوپہر ہوگئی ، اب آپ ﷺنے ایک مقام پر فوج کو خیمہ زن ہونے کا حکم دیا ، ابن ہشام اور دوسرے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ سفر کی درازی اور اس کی مشقت لوگوں کو تھکادے ، مہاجرین وانصار کے درمیان جو تلخی پیدا ہوگئی تھی ، وہ ذہن سے محو ہوجائے اور لوگ اس قدر تھک جائیں کہ آرام اور ضروریات کی فکر کریں ۔
اس کے بعد دو عجیب واقعے پیش آئے ، ایک یہ کہ مدینہ کے قریب پہنچ کر عبداﷲ بن ابی کے صاحبزادہ جو مخلص مسلمان تھے ، کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس وقت تک اپنے والد کو مدینہ میں داخل ہونے سے روک دیا ، جب تک حضور ﷺ اجازت نہ دے دیں ، یہ عبداﷲ بن ابی کی اس بات کا جواب تھا کہ مدینہ کے باعزت لوگ ذلیل و کمتر لوگوں کو نکال باہر کریں گے ، ظاہر ہے کہ ذلیل و کمتر سے اس منافق کی مراد مسلمان اور خاص کر مہاجرین سے تھی ۔
دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ مدینہ میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ رسول اﷲ ﷺعبداﷲ بن ابی کے قتل کا حکم صادر کرنے والے ہیں ، انصار بھی عام طورپر اس کے نفاق سے واقف ہوچکے تھے ، اسی دوران عبداﷲ بن ابی کے صاحبزادے خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : سنا ہے کہ آپ میرے والد کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، اگر آپ یہ حکم دیں تو بے جا نہیں ہوگا ، لیکن مشکل یہ ہے کہ مجھے اپنے والد سے بڑی محبت ہے اور میں ان کے قاتل کو دیکھ نہیں سکتا ، پھر یہ بات اچھی نہیں ہوگی کہ ایک کافر کی وجہ سے ایک مسلمان کا قتل ہو ؛ اس لئے اگر آپ واقعی ایسا حکم دینے والے ہیں ، تو مجھے حکم فرمائیں ، میں اپنے والد کا سرقلم کرکے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، آپ ﷺنے فرمایا : نہیں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ، جب تک کوئی شخص بظاہر مسلمان ہوگا ، میں اس کے ساتھ مسلمان کا ساہی معاملہ کروں گا ؛ بلکہ میں تو عبداﷲ بن ابی کے ساتھ حسن سلوک کروں گا ۔پھر آپ ﷺنے حضرت عمر ؓ کو بلایا کہ اگر اُس وقت عبداﷲ بن ابی کے قتل کا حکم دیا جاتا تو حضراتِ انصار کے دل میں خلش ہوسکتی تھی ، وہ سمجھتے کہ ہمارے سردار کو قتل کرا دیا گیا ہے ؛ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ خود ان کے صاحبزادے ان کا سرقلم کرنے کو تیار ہیں ، حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : میں نے جان لیا کہ رسول اﷲ ﷺ کی رائے میں میری رائے سے زیادہ برکت ہے : لقد واﷲ علمت لأمر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أعظم برکۃ من أمری (البدایہ والنہایہ لابن کثیر : ۴؍۱۵۸)
سیرتِ نبوی ﷺکے اس اہم واقعہ کی روشنی میں جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جوش کے ساتھ ہوش اور جرأت کے ساتھ حکمت کا امتزاج ضروری ہے ، عواقب و نتائج کو سوچے اور انجام پر نظر رکھے بغیر وقتی جوش اور جذبات کی بنا پر کوئی قدم اُٹھانا مفید سے زیادہ مضر ہوتا ہے اور افراد و اشخاص اور اقوام و ملل کو بد انجامی کی طرف لے جاتا ہے ، رسول اﷲ ﷺ کی سیرت میں بار بار اس حقیقت کی طرف اشارہ موجود ہے ، مکہ میں آپ ﷺ تیرہ سال رہے اور مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے ، ایسے وقت میں آدمی سوچتا ہے کہ بار بار مرنے سے ایک بار مرجانا بہتر ہے ؛ اس لئے بہت سے صحابہ ؓ جہاد کی اجازت کے ملتجی ہوتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺ نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی ، صلح حدیبیہ کے بعد حضرت ابو بصیر مسلمان ہوکر آئے تو آپ نے معاہدہ کے مطابق انھیں واپس کردیا ، انھوں نے اہل مکہ کے نمائندہ کو کیفر کردار تک پہنچایا اور ایک کا تعاقب کرتے ہوئے مدینہ آپہنچے اور حضور ﷺ سے کہا کہ آپ اپنا وعدہ پورا کرچکے ہیں ؛لیکن حضور ﷺ نے انھیں پھر واپس کیا اور خفگی کا اظہار بھی فرمایا کہ تم جنگ کی آگ بھڑکانا چاہتے ہو۔
صلح حدیبیہ کے موقع سے چودہ سو جانباز آپ ﷺکے ساتھ تھے ، یہ وہ لوگ تھے جنھیں خدا کے راہ میں جان دینا جان بچانے سے زیادہ عزیز تھا ، لیکن آپ ﷺنے اہل مکہ کی شرطوں پر ان سے معاہدہ فرمایا ؛ حالاںکہ بہت سے صحابہ ؓ اسے اپنی ہزیمت سمجھ رہے تھے اور انھوں نے اس صلح کو محض آپ ﷺ کی اطاعت میں قبول کیا تھا ، ورنہ دل اس پر آمادہ نہیں تھا ، صلح حدیبیہ ہی کے موقع پر چالیس مشرکین مکہ کے ایک جھنڈ نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا ، مسلمانوں نے انھیں گرفتار کرلیا ؛ لیکن آپ ﷺ نے انھیں یوں ہی رہا کردیا کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مسلمانوں نے حرم کے احترام کو بھی پامال کرنا شروع کردیا ہے اور اس طرح یہ عربوں میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث نہ بنے ۔
اس لئے حیات ِمحمدی ﷺ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا کام محض جوش وجذباتیت پر مبنی نہ ہو ، وہ کس قدر بھی مظلوم و ستم رسیدہ ہوں اور ان کے حالات کتنے ہی ناگفتہ ہوں ، فراست ِ ایمانی اور حکمت ِنبوی ﷺ کا دامن ان کے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے ، وہ دنیا میں ہدایت کا مینار اور روشنی کا چراغ ہیں ، کفر کی ظلمتیں اور اندھیرے کی نمائندہ طاقتیں ان سے برسرپیکار ہیں اور وہ انھیں ہر سطح پر نہ صرف مظلوم بناکر رکھنا چاہتے ہیں ؛بلکہ انھیں ذلیل ورسوا بھی کرنے کے درپے ہیں ، ایسی صورت میں ہماری انفرادی اور اجتماعی ناعاقبت اندیشی غیر معمولی نقصانات کا باعث بن سکتی ہے ، دشمن کی طاقت ، اس کے عزائم ، اس کے مزاج اور اپنی صلاحیت و قوت کا اندازہ کئے بغیر جب ہم کوئی قدم اُٹھائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ ہم دو چار افراد کو گرفتار کرلیں ، ۲۵، ۵۰ کو قتل کردیں ؛ لیکن یہی اقدام اُمت کی بہت سی عورتوں کے سہاگ لٹ جانے ، بچوں کے یتیم ہونے ، نوجوانوں کے زندگی سے محروم ہونے اور چند اشخاص کے لئے پورے ملک کے تباہ و برباد کردیئے جانے کا باعث ہو ، ایسے مواقع کے لئے سیرتِ نبوی ﷺکے کس پہلو کو اسوہ بنانا مناسب ہوگا یہ اہل علم و دانش اور اصحابِ فکر و نظر کے سوچنے کی بات ہے !۰ ۰ ۰