عفو و درگزر
عفو و درگزر کا باب آپ کے یہاں بہت وسیع تھا ، اور دوستوں و دشمنوں سب کو اس سے سرفراز ہونے کا موقع ملتا تھا ، جب فتح مکہ ہوا تو وہ سارے لوگ آپ کے سامنے موجود تھے ، جنھوں نے آپ کے قتل کے منصوبے بنائے ، آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جسمانی اذیتیں پہنچائیں ، آپ کو برا بھلا کہا ، معاشی ناکہ بندی کی اور آپ کے پورے خاندان کو دانہ دانہ کے لئے ترسایا ، آپ کی صاحبزادیوں کے طئے رشتے توڑ وادئیے ، لیکن آپ نے ان سبھوں کو بہ یک جنبش زبان معاف فرما دیا ، یہاں تک کہ ان کے جور و ظلم کا ذکر کرکے انھیں شرمندہ بھی نہیں فرمایا ، آپ نے محبوب چچا حضرت حمزہ کے قاتل وحشی ، ان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ ، بدترین دشمن ابو جہل کے بیٹے عکرمہ اور غزوہ احد اور غزوہ خندق میں مشرکین کی قیادت کرنے والے ابو سفیان سبھوں کو دامن عفو میں پناہی دی ،
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا آپ سخت کناروں والی نجران کی بنی ہوئی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے ، ایک دیہاتی کی آپ سے ملاقات ہوئی ، اس نے بہت زور سے چادر کھینچی ، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کا نشان پڑ گیا ، اس نے کہا : اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے ، مجھے اس میں سے دینے کا حکم دو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے ، ہنسے پھر اس کو دینے کا حکم فرمایا ۔
حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ گدھے پر سوار ہوئے اور حضرت اسامہ کو اپنے پیچھے بیٹھا لیا ، آپ حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے ، آپ کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا ، جہاں مسلمان بھی تھے ، مشرکین بھی تھے ، اور یہود بھی تھے ، انھیں میں منافقین کا سردار عبد اللہ ابن ابی تھا اور مخلص صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی تھے ، آپ کی سواری کا غبار اڑا اور اس مجلس میں پھیل گیا ، عبد اللہ بن ابی نے ناک پر چادر رکھ لی اور کہنے لگا : ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ ، حضور نے اس مجمع کو سلام کیا ، پھر اترے اور انھیں اللہ کی طرف دعوت دی ، نیز ان کے سامنے کچھ قرآن پڑھا ، عبد اللہ بن ابی کہنے لگا : اس سے اچھی کوئی اور بات تمہارے پاس نہیں ہے ؟ تم جو کچھ کہ رہے ہو ، اگر یہ سچ اور حق ہے تو تمہیں ہماری بیٹھکوں میں تکلیف نہ دیا کرو اور جاؤ اپنے گھر ، اگر ہم میں سے کوئی تمہارے پاس آئے تو اس سے بیان کیا کرو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کے اس حقارت آمیز سلوک کو معاف فرما دیا ۔
ایک موقع پر ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا : تمہارے پاس جو کچھ مال ہے ، نہ تمہارے ہے نہ تمہارے باپ کا ، مجھے بھی اس سے دو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور کچھ لاکر عنایت فرمایا ، عرب کے دیہاتی عام طور پر تہذیب سے نا آشنا ہوتے تھے ، وہ کہنے لگے : آپ نے بہتر برتاؤ نہیں کیا اور نہ اچھے اخلاق کا ثبوت دیا ، آپ اندر تشریف لے گئے ، جو کچھ بچ گیا تھا وہ بھی لے آئے اور عنایت فرمادیا ، دیہاتی بہت خوش ہوگیا ، کہنے لگا: آپ نے بہت اچھا سلوک فرمایا اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا: “قد اجملت و قد أحسنت” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: میری مثال اس شخص کی ہے جس کا اونٹ بدک گیا ہو، لوگ اس اونٹ کو پکڑنے کے لیے دوڑیں ، لوگ جس قدر دوڑتے ، اونٹ اسی قدر بھاگتا جاتا ، یہاں تک کہ اونٹ کے مالک کو خبر ہوئی ، اس نے لوگوں کو منع کردیا اور پیار کے ساتھ اپنے ہاتھ میں چارے لے کر اونٹنی کو آواز دی ، اونٹنی واپس آنے لگی ، مالک اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے واپس لے آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سلوک بِدکی ہوئی اونٹنی کے ساتھ اس کے مالک کا ہوتا ہے وہی سلوک میرا امت کے اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو بدک گیا ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجد کی طرف سے واپس آرہے تھے راستہ میں ایک وادی ملی ، جہاں دھیر سارے درخت تھے ، وہاں پہنچ کر دوپہر کا وقت ہوگیا ، لوگ مختلف درختوں کے سایہ میں ٹھہر گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گئے ، ایک شخص آیا ، اس نے آپ پر تلوار سونت لی ، اور پوچھا : تم کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: “اللہ” اس کے ہاتھ کانپنے لگے ، اور ہاتھ سے تلوار گرگئ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بدلہ لے سکتے تھے لیکن آپ نے معاف فرمادیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی عفو و درگزر سے عبارت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عفو و درگزر سے کام لیتے تھے ، اور اپنے رفقاء کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے ، ایک صاحب نے اپنے خادم کے بارے میں دریافت کیا ، جس سے بار بار تکلیف پہنچتی تھی ، کہ ہم کتنی بار اسے معاف کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، انھوں نے پھر یہی سوال دہرایا ، تب بھی آپ خاموش رہے ، انھوں نے تیسری بار پھر یہی سوال کیا تو آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دن ستر بار معاف کیا کرو۔
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ بدلہ لینے میں ان کا وقار اور رعب بڑھ جائے گا اور معاف کرنے میں کم ہو جائے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی اس نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو بندہ عفو سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اظافہ فرماتے ہیں ” و ما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا”
ایک موقع پر فرمایا: تم رحم کرو تو تم پر رحم کیا جاۓ گا ، تم معاف کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو معاف کرے گا ، “و إغفروا يغفر الله لكم “