دیوالی و ہولی وغیرہ غیر مسلم تہوار کے موقع پر شاپنگ مال وغیرہ کی طرف سے جو آفر دیئے جاتے ہیں، کہ اتنی خریداری پر اتنا ڈسکاؤنٹ کیا جائے گا، یا کوپن دیا جائے گا، اور قرعہ میں نام نکلنے پر فلاں چیز انعام میں دی جائے گی- اس کو حاصل کرنے کے لیے مقررہ رقم تک اشیاء کی خریداری جائز ہے یا نہیں؟
الجواب-و باللہ تعالیٰ التوفیق-:
شاپنگ مال وغیرہ گاہکوں کو خریداری کی ترغیب دینے کے لیے مختلف مواقع پر اس طرح کے آفر (offer) دیتے ہیں، اس کا مذہبی عقائد، رسم و رواج، یا مذہبی تہوار کی شان و شوکت بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے- چنانچہ مسلم تہواروں، جیسے: عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر بھی اس طرح کے آفر دیئے جاتے ہیں-
لہٰذا ضرورت کی چیز اتنی رقم کی خریدی جائے کہ اس پر ڈسکاؤنٹ ہوسکتا ہو، یا انعام کے طور پر کوئی چیز مل سکتی ہو، شرعی اعتبار سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے-
شرعاً صرف یہ ممنوع ہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار میں شرکت کی جائی، یا مذہبی تہوار کا تماشا دیکھا جائے، یا بتوں پر چڑھائی ہوئی چیز کو قبول کیا جائے، یا مذہبی تہوار کی تعظیم کے طور پر گفٹ و ہدیہ دیا جائے-
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (والذين لا يشهدون الزور و إذا مروا باللغو مروا كراما)- (25/ فرقان:72)- ( اور اللہ کے نیک بندے وہ ہیں، جو باطل میں شریک نہیں ہوتے ہیں، اور جب لغو و لا یعنی اور بیہودہ کام کے پاس سے ان کا گزر ہوتا ہے، تو شریفانہ (نگاہیں نیچی کرتے ہوئے) گزر جاتے ہیں)-
عام طور سے مفسرین نے اس سے ہر طرح کے باطل کام، جیسے: غیر مسلموں کے مذہبی تہوار، بت اور دیوی دیوتاؤں کے تماشے اور رقص و سرود کی محفلیں مراد لی ہیں-
“روح المعانی” میں ہے: ” قال: قتادة: لا يساعدون أهل الباطل على باطلهم ولا يؤملونهم فيه…. وعن ابن عباس: أنه صنم كانوا يلعبون حوله سبعة أيام، و في رواية أخرى عنه: أنه عيد المشركين. وروي ذلك عن الضحاك، و عن هذا أنه الشرك”. (آلوسی، روح المعانی 10/50، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ، تحقیق: علی عبد الباری عطیہ)-
“تفسیر قرطبی میں ہے: “و لا يحضرون الكذب والباطل ولا يشاهدونه، والزور كل باطل زور و زخرف، و أعظمه الشرك و تعظيم الأنداد”. (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن 13/78، ریاض: دار عالم الکتب، تحقیق: ہشام سمیر بخاری،ع.أ.:20)-
” تفسیر ابن کثیر” میں ہے: “لا يحضرون الزور، و إذا اتفق مرورهم به مروا ولم يتدنسوا منه بشيء”. (ابن کثیر، تفسیر القرآن الکریم 3/400، بیروت، دار الفکر، 1414ھ/1994ء، تحقیق: محمود حسن، ع.أ.:4)-
ان اقوال میں تطبیق دیتے ہوئے امام طبری – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- تحریر فرماتے ہیں:”قال أبو جعفر: و أصل الزور تحسين الشيء، و وصفه بخلاف صفته، حتى يخيل إلى من يسمعه أو يراه، أنه خلاف ماهو به، والشرك قد يدخل في ذلك؛ لأنه محسن لأهله، حتى قد ظنوا أنه حق، وهو باطل، ويدخل فيه الغناء؛ لأنه أيضاً مما يحسنه ترجيع الصوت، حتى يستحلي سامعه سماعه، و الكذب أيضا قد يدخل فيه لتحسين صاحبه إياه، حتى يظن صاحبه أنه حق، فكل ذلك مما يدخل في معنى الزور”. ( طبری، جامع البیان فی تاویل القرآن 19/314، ط:1، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، 1420ھ/2000ء، تحقیق: احمد محمد شاکر، ع.أ.:24)-
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب، علمہ اتم و احکم
کتبہ: العبد المفتقر الی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ:
محمد شاہ جہاں ندوی
دار الافتاء والقضاء:
جامعہ سید احمد شہید، احمد آباد، کٹولی، ملیح آباد، لکھنؤ، یوپی (انڈیا)
226102