:
از : ڈاکٹر مفتی محمد شاہ جہاں ندوی
نس بندی کے احکام کی وضاحت فرمادیں
الجواب-و باللہ تعالیٰ التوفیق
انسانی نسل میں استمرار:منشائے الٰہی ہے کہ قیامت کے دن کے آنے تک نسل انسانی میں استمرار جاری رہے- اللہ رب العزت نے اسی مقصد سے انسان کے اندر جنسی خواہش رکھی ہے، اور توالد و تناسل کا سلسلہ جاری فرمایا ہے- جہاں غلط طریقے پر جنسی تعلقات قائم کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے- وہیں جائز طریقے سے جنسی خواہش کی تکمیل کی حوصلہ افزا کی گئی ہے- شادی بیاہ کے معروف طریقہ کو مشروع قرار دیا گیا ہے- اور اسے شرعی شرائط اور ضوابط کا پابند بنایا گیا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى و ثلاث و رباع). (4/ نساء:3)- ( سو خواتین میں سے جو تمہیں پسند ہوں، ان سے دو دو، تین تین اور چار چار تک شادی کرسکتے ہو)-
ایک دوسری جگہ جائز طریقے سے جنسی خواہش کی تکمیل کرنے کی تعریف کی گئی ہے، اور ناجائز طریقے سے جنسی تعلقات قائم کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے- فرمان باری تعالیٰ ہے: (والذين هم لفروجهم حافظون إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم فإنهم غير ملومين. فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون). (23/ مؤمنون: 5- 7)- ( اور (حقیقی و کامیاب مومن وہ ہیں) جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں- سوائے اپنی بیویوں اور شرعی کنیزوں کے، کہ (ان سے جنسی تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں) ان پر کوئی ملامت نہیں ہے- سو جو لوگ اس کے علاوہ کی چاہت کریں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں)-
جیسے جیسے انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا ہے، قدرتی وسائل میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے- ہر متنفس اور جاندار اس دنیا میں اپنا رزق لے کر آتا ہے- لہٰذا انسانوں کے بھوکے رہنے اور ضروریات پوری نہ ہونے کا تصور غلط اور بے بنیاد ہے- اسی لیے کتاب وسنت کی نصوص میں افلاس کے خوف سے اولاد کے قتل کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے- ارشاد الٰہی ہے: (ولا تقتلوا أولادكم من إملاق نحن نرزقكم و إياهم). (6/ انعام: 151)- (اور اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے مت مارو، ہم تمہیں بھی اور ان کو بھی روزی دیتے ہیں)-
ایک دوسری جگہ فرمان باری تعالیٰ ہے: (و لا تقتلوا أولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم و إياكم، إن قتلهم كان خطئا كبيرا). (17/ اسراء:31)- (اور اپنی اولاد کو افلاس کے خوف سے مت مارو، ہم انہیں بھی اور تمہیں بھی روزی دیتے ہیں- یقیناً ان کا قتل بڑا اور سنگین گناہ ہے)-حضرت عبداللہ بن مسعود – رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ مین نے رسول کریم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- سے دریافت کیا کہ :”أي الذنب أعظم؟ قال: أن تجعل لله ندا، و هو خلقك. قلت: ثم ماذا؟ قال: أن تقتل ولدك خشية أن يطعم معك. قلت: ثم ماذا؟ قال: أن تزاني بحليلة جارك”. (صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب قوله: (والذين لا يدعون….، حدیث نمبر 4761، و کتاب الدیات، باب قول الله تعالى: (ومن يقتل مؤمنا…..، حدیث نمبر 6861، مسلم، کتاب الایمان، باب الشرك أعظم الذنوب وبيان أعظمها بعده، حدیث نمبر 86)- (کون سا گناہ سب سے زیادہ سنگین ہے؟ رسول اکرم-صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے جواب دیا: تم کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے-میں نے دریافت کیا: اس کے بعد کون سا گناہ سنگین ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا اپنی اولاد کو محض اس خوف سے مار ڈالنا کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی- میں نے دریافت کیا: پھر کونسا گناہ سنگین ہے؟ آپ – صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے جواب دیا: اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا)-
شرعی احکام:1
– نس بندی (sterilization) یعنی مستقل ضبط ولادت (permanent birth control) کہ ہمیشہ کے لیے قوت تولید ختم کردی جائے شرعاً سخت حرام ہے-2- محض خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ضبط ولادت ناجائز ہے-3
– محض خوشحالی اور معیاری زندگی بلند کرنے کی خاطر بھی ضبط ولادت حرام ہے-4
– دوسرے بچہ کی پیدائش سے بچہ یا ماں کی صحت کو خطرہ لاحق ہونے کا ظن غالب ہو، تو دو بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ رکھا جاسکتا ہے- اس مقصد سے فطری طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے کہ ان دنوں میں جنسی تعلقات قائم کئے جائیں جن میں حمل ٹھہرنے کا کم امکان ہوتا ہے- نیز رکاوٹ کے دیگر طریقے، جیسے: کنڈوم (Condom)، ڈایا فرام (diaphragm)، سپنج (sponge) سروائیکل ٹوپی (cervical cap) وغیرہ کا استعمال کیا جا سکتا ہے، جو عارضی طور پر سپرم (sperm: منی) کو انڈے تک پہنچنے سے روکتے ہیں- نیز دوسرے عارضی طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں-5
– “عزل” ( منی نکلتے وقت اسے باہر میں خارج کرنا) بھی ایک طریقہ ہے، جو ولادت کے درمیان وقفہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے- نبی کریم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے ” عزل” سے صراحتاً منع نہیں فرمایا، بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ وہی ہوگا، جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا ہے- حضرت جابر بن عبداللہ-رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: “كنا نعزل، والقرآن ينزل، لو كان شيئًا ينهى عنه لنهانا القرآن”. (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب العزل، حدیث نمبر 5207، 5208، 5209، صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب حکم العزل، حدیث نمبر 1440)- ( ہم “عزل” کرتے تھے، اور قرآن مجید نازل ہورہا تھا- (سو) اگر کوئی ممنوع چیز ہوتی تو قرآن کریم ضرور ہمیں اس سے منع کردیتا)-ایک روایت میں ہے: ” فبلغ ذلك نبي الله- صلى الله تعالى عليه فلم ينهنا”. ( صحيح مسلم، حدیث نمبر 1440)- ( ہمارے “عزل” کرنے کی اطلاع نبی کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- کو ہوئی، تو آپ نے اس سے ہمیں منع نہیں فرمایا)-اگرچہ نبی کریم- صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے صراحتاً اس سے منع نہیں فرمایا، لیکن آپ نے اسے پسند نہیں فرمایا- جنابہ جدامہ بنت وھب – رضی اللہ تعالیٰ عنہا- سے روایت ہے کہ رسول اکرم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم- نے فرمایا: “ذلك الوأد الخفي، و هي (و إذا الموؤدة سئلت). (صحيح مسلم، كتاب النكاح، باب جواز الغيلة، و هي وطء المرضع، و كراهة العزل، حديث نمبر 1442، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2011)- ( ” عزل” پوشیدہ طور پر اولاد کو دفن کرنا ہے- اور ایک طرح سے یہ بھی ( زندہ در گور کی ہوئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ کس جرم میں اسے قتل کیا گیا) میں داخل ہے)-اسی وجہ سے فقہاء نے اسے اپنی آزاد بیوی کی رضامندی سے درست قرار دیا ہے- “ہندیہ” میں ہے: “العزل ليس بمكروه برضا امرأته الحرة”. (ہندیہ، کتاب النکاح، الباب التاسع فی نکاح الرقیق 1/335، بیروت، دار الفکر، 1411ھ/1991ء، ع.أ.:6)-“رد المحتار” میں ہے: “قوله: قال الكمال”: عبارته: و في الفتاوى: إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها اه…وبه جزم القهستاني أيضاً، حيث قال: و هذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان، و إلا فيجوز بلا إذنها اه”. (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب النکاح، مطلب فی حکم العزل 3/176، بیروت، دار الفکر، 1421ھ/2000ء، ع.أ.:8)-6- اگر ماہر قابل اعتماد ڈاکٹر کی ٹیم کی رائے میں آئندہ ولادتِ سے خاتون کی جان جانے، یا عضو تلف ہونے کا ظن غالب ہو، تو خاتون کے لیے ضبط ولادت کی گنجائش ہوگی-اکیڈمی کا فیصلہ:اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کی تجویز ہے:1- دائمی منع حمل کی تدابیر کا استعمال مردوں کے لیے کسی بھی حال میں درست نہیں ہے- عورتوں کے لیے بھی منع حمل کی مستقل تدابیر ممنوع ہیں، سوائے ایک صورت کے، اور وہ استثنائی صورت یہ ہے یہ ہے کہ ماہر قابل اعتماد اطباء کی رائے میں اگلا بچہ پیدا ہونے کی صورت میں عورت کی جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا ظن غالب ہو، تو اس صورت میں عورت کا آپریشن کرادینا تاکہ استقرار حمل نہ ہوسکے جائز ہے-2- جو بچہ موجود ہے اس کی پرورش، رضاعت اور نشوونما میں اگر ماں کے جلد حاملہ ہونے کی وجہ سے نقصان کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں مناسب وقفہ قائم رکھنے کی خاطر عارضی مانع حمل تدابیر اختیار کرنا جائز ہے-3- چند استثنائی صورتوں میں عارضی منع حمل کی تدابیر و ادویہ کا استعمال مردوں اور عورتوں کے لیے درست ہے- مثلاً:(الف) عورت بہت کمزور ہے- ماہر اطباء کی رائے میں وہ حمل کی متحمل نہیں ہوسکتی، اور حمل ہونے سے اسے شدید ضرر لاحق ہونے کا قوی اندیشہ ہو-(ب) ماہر اطباء کی رائے میں عورت کو ولادت کی صورت میں نا قابل برداشت تکلیفوں اور ضرر میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو-واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب، علمہ اتم و احکم