*تبلیغی جماعت کے دونوں دھڑوں میں خوں ریز تصادم- ایک لمحہ فکریہ*
*سید احمد اُنیس ندوی* دو دن پہلے مؤرخہ 17 دسمبر کو ٹونگی اجتماع گاہ (بنگلہ دیش) میں جماعتِ تبلیغ کے دونوں دھڑوں کے درمیان جو خوں ریز تصادم ہوا ہے، جس میں کم از کم تین افراد جاں بحق اور درجنوں شدید زخمی ہیں، وہ جماعت کی تاریخ کا بدترین اور سیاہ ترین باب ہے۔ وہ جماعت جو “اللہ کی طرف دعوت” اور “اصلاح امت” کا عَلَم لے کر وجود میں آئی تھی، اور جس جماعت کے بارے میں یہ تصور عام تھا کہ ان کو “زمین کے نیچے” اور “آسمان کے اوپر” سے ہی مطلب رہتا ہے، اور جس جماعت کے افراد نے واقعی بے نظیر جانی مالی قربانیاں پیش کی تھیں، اور جس کے بانیان اور سلف نے پوری دنیا میں مجاہدات، قربانی اور اخلاص کی ناقابل یقین تاریخ رقم کی، وہی جماعت اپنے بانیان کے اصولوں سے اس قدر جلدی منحرف ہو جاۓ گی، اور اُس میں ایسا پُرفتن زوال اور انحطاط آۓ گا، یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ “حب جاہ” اور “عصبیت” کا ایسا نشہ خواص سے لے کر عوام تک اور پرانوں سے لے کر جوانوں تک سب پر طاری ہوگا کہ جس کے نتیجے میں اکثر و بیشتر افراد جماعت “گروہ بندی” اور “عصبیت” کے گڑھوں میں یوں جا گریں گے، یہ تصور سے بھی بالاتر تھا۔ آرا کا شدید اختلاف تو سیاسی جماعتوں میں بھی ہوتا ہے، مگر موجودہ دنیا میں وہ بھی ظاہری اخلاق کا پاس و لحاظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں اپنے افکار و نظریات میں شدید اختلاف کے باوجود اپنے مشترکہ دشمن سے مقابلے کے لیے مل جل کر مختلف سیاسی جماعتوں کا “اتحاد” قائم کرتی ہیں۔ کیا جماعت کے ان دونوں گروہوں کا بلکہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ دشمن “شیطان” نہیں ہے ؟ کیا خارجی محاذ پر ابلیسی, دجالی اور طاغوتی قوتیں پوری امت کے لیے “آزمائش” اور “فتنہ” نہیں ہیں ؟ لیکن اس کے باوجود آپس میں ہی یہ خوں ریز تصادم ؟؟؟ مجھے تحقیق کے ساتھ یہ بات نہیں معلوم کہ اس تصادم میں زیادتی کس…
Read more