حرا آن لائن
قرآن مجید سے تزکیۂ نفس

معاویہ محب الله قرآن مجید کے نازل کئے کانے کا مقصد الله تعالیٰ نے چار آیات میں خصوصی طور سے ذکر کیا ہے، سورۂ جمعہ کی آیت ۲ میں وہ مضمون ملاحظہ فرمائیں ؛ هُوَ ٱلَّذِی بَعَثَ فِی ٱلۡأُمِّیِّـۧنَ رَسُولࣰا مِّنۡهُمۡ یَتۡلُوا۟ عَلَیۡهِمۡ ءَایَـٰتِهِۦ وَیُزَكِّیهِمۡ وَیُعَلِّمُهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ وَإِن كَانُوا۟ مِن قَبۡلُ لَفِی ضَلَـٰلࣲ مُّبِینࣲ [الجمعة ٢]رسول الله صلی الله عليه وسلم کو تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت کے لئے مبعوث فرمایا، اس کا مقصد یہ کہ وہ انسانوں کا تزکیہ کرے، ان کے نفوس کی تطہیر کرے، ان کو تقویٰ و طہارت کی تعلیم دے۔ • یہاں رک کر ایک بات یاد رہنی چاہئے کہ تزکیہ، تطہیر اور تقوی تینوں قرآن مجید میں اکثر ایک معنی میں استعمال ہوئے ہیں، حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے اپنے رسالہ ” فصل في تزكية النفس” میں لکھا ہے کہ تزکیہ، طہارت اور تقوی ایک ہی معنی میں ہیں، قرآن مجید کی کئی آیات سے اسی معنی کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے ؛ فَلَا تُزَكُّوۤا۟ أَنفُسَكُمۡۖ هُوَ أَعۡلَمُ بِمَنِ ٱتَّقَىٰۤ. اس آیت میں انسانوں کو اپنے آپ پاکیزہ سمجھنے سے منع فرمایا ہے، ساتھ ہی عرض کردیا کہ الله تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں کون صاحبِ تقوی ہیں؟ تزکیہ گویا تقوی ہی کے مفہوم میں یہاں آیا ہے۔ • نیز طہارت بھی تزکیہ کے معنی میں ہے، قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے حکم ارشاد فرمایا ؛خُذۡ مِنۡ أَمۡوَ ٰ⁠لِهِمۡ صَدَقَةࣰ تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّیهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَیۡهِمۡۖ. رسول الله صلی الله عليه وسلم کو حکم دیا کہ صدقہ و زکوۃ وصول کرے، اور ان کا تزکیہ و تطہیر کریں، یہاں تزکیہ و تطہیر بطور مترادف استعمال ہوا ہے۔ • پوری شریعت کا مقصد ہی تزکیہ و تطہیر ہے، تزکیہ کے لغوی معنی میں پاک صاف کرنے اور نشو ونما کرنے ؛ دونوں مفہوم شامل ہیں، جہاں شریعت کے احکامات و منھیات سے بُرے خصائل، اخلاق رذائل اور کھوٹے کرداروں کی صفائی کی جاتی ہے، وہیں عمدہ اخلاق، اعلیٰ محاسن اور نیک خصائل کو پروان چڑھایا جاتا ہے، اسی لئے الله تعالیٰ نے قرآن…

Read more

روزہ جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہونا چاہیے !

محمد قمرالزماں ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ روزہ اسلام کا اہم رکن ہے ،یہ بدنی عبادت ہے، اس میں مشقت اور زحمت بھی زیادہ ہوتی ہے ، اسی لئے اس کا اجر و ثواب خود اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے دیں گے، یہ حقیقت ہے کہ تمام عبادات میں سب سے زیادہ اثر انسانوں کے جسم ،روح اور اخلاق پر بیک وقت روزہ کا پڑتا ہے ،یہ انسان کو کئی طرح کی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،: روزہ رکھو صحت مند ہوگے ۔(کشف الخفا و مزیل الالباس) اگر روزہ میں آداب و ارکان حدود و قیود اور شرائط و ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے تو یقینا روزہ انسان کے اندر تقویٰ اور خوف خدا پیدا کرتا ہے اور تقویٰ اصلاح کی بنیاد ہوتی ہے اور تقویٰ کے نتیجہ میں ایسی سعادت اور خوش بختی نصیب ہوتی ہے کہ سارے غم اور خوف و ہراس مٹ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،، فمن اتقیٰ و اصلح فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون ،، سورہ اعراف ۔جو کوئی تقویٰ اختیار کرے گا اور نیک عمل کرے ،اسے نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ رنج و غم ۔ روزہ دار کا خورد و نوش اور نفسانی خواہشات کا ایک مخصوص وقت تک کے لئے چھوڑ دینا، یہی کافی نہیں ہے ،یہ تو محض روزہ کی ظاہری صورت اور شکل ہے ،اصل یہ ہے کہ وہ ظاہر کہ ساتھ اس روزہ کے روح کا بھی خیال اور رعایت کرے ، جو روزے کے لئے ضروری ہے ورنہ اس کا یہ ظاہری روزہ اور بھوک و پیاس کو برداشت کرنا اور جائز نفسیاتی خواہشات کا ایک وقت تک کے لئے ترک کر دینا اس کے لئے کوئی فائدہ بخش نہیں ہوگا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کم من صائم لیس له من صیامه الا الظماء ،و کم من قائم لیس لہ من قیامه الا السھر (سنن دارمی، کتاب…

Read more

🔰سیاسی فائدہ کے لئے جھوٹ اور پروپیگنڈانا

از : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی موجودہ حکومت ہمیشہ ایسے موض کی تلاش میں رہتی ہے، جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کرنے میں معاون ومددگار ہو، اور زیادہ تر اس میں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے، ایک ایسا ہی جھوٹ ہے، جس کو ’’ لَو جہاد‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، یعنی مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں سے محبت وپیار کے نام سے تعلق استوار کرتے ہیں، اور بالآخر اس لڑکی کو مسلمان بنا لیتے ہیں، اس جھوٹ کو اتنی شدت اور تکرار کے ساتھ بار بار پیش کیا جاتا ہے کہ ایک بڑا طبقہ اس سے متاثر ہو رہا ہے؛ کیوں کہ اکثر لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں، تحقیق کی زحمت نہیںاُٹھاتے؛ چنانچہ اس وقت مہاراشٹرا کی بھاجپا حکومت نے لَو جہاد کے خلاف قانون سازی کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس کا صاف مقصد سیاسی فائدہ اُٹھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کچھ ایسی رکھی ہے کہ وہ محبت کا بھوکا ہے؛ اسی لئے اسے خوشی کے ماحول میں ایسے لوگوں کی جستجو ہوتی ہے جو اس کی مسرت میں شریک ہوسکیں ، یہ شرکت اس کی خوشی کو دو بالا کردیتی ہے ، اسی طرح کسی انیس و غمخوار کی موجودگی اس کے غم کو ہلکا کرنے کا باعث بنتی ہے ، یہ محبت اسے اکثر ایسے رشتوں سے حاصل ہوتی ہے جو فطری ہیں اورجس میں اس کے اختیار کو کوئی دخل نہیں؛ مگر ایک رشتہ ایسا بھی ہے جس کو انسان اپنی پسند اوراختیار سے وجود میں لاتا ہے ، یہ ہے رشتۂ نکاح، نکاح کے بندھن میں بندھنے والے مرد وعورت کا ایک خاندان ایک علاقہ اور ایک زبان سے وابستہ ہونا ضروری نہیں ، بہت سی دفعہ بالکل اجنبی لوگوں کے درمیان رشتہ طے پاتا ہے ؛ لیکن یہ رشتہ ایسی محبت و اُلفت کو جنم دیتا ہے جس کی گہرائی اکثر اوقات دوسرے تمام رشتوں سے بڑھ جاتی ہے ، پرانے رشتے اس نئے رشتہ کے مقابلہ میں ہیچ ہوجاتے ہیں ، یہ رشتہ یوں بھی اہم ہوتا…

Read more

  فكر اسلامى كا مطالعه كس طرح كريں؟

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ سوال:  ايكـ محترم عالم ومدرس (جو كسى وجه سے اپنا نام بتانا نہيں چاہتے) نے سوال كيا: مولانا! آپ فكر اسلامى كے مطالعه پر زور ديتے ہيں، برائے مہربانى بتائيں كه فكر اسلامى كيا ہے؟ اور اس كا مطالعه كس طرح كريں؟ جواب:  يه  سوال آپ كى سلامت طبع اور پختگى عقل كى دليل ہے، سارے نافع علوم كا مقصد مثبت ہوتا ہے، يعنى ايكـ طالب ان علوم كى تحصيل كرتا ہے، تاكه حق تكـ رسائى كرے، اس سے خود فائده اٹهائے اور دوسروں كو بهى فائده پہنچائے، اس كے برعكس علوم ضاره كا بنيادى مقصد منفى ہوتا ہے، انہيں دوسروں كو نقصان پہچانے كے لئے حاصل كيا جاتا ہے، جيسے جادو اور عمليات، اسى قسم ميں مناظره، جدل اور ترديد داخل ہيں۔ تعريف:  فكر ايكـ عقلى عمل ہے، فكر كو عقل سے جدا نہيں كيا جا سكتا، كوئى بات اسى وقت فكر كہلائے گى جب اس كى تشريح عقلى بنيادوں پر كى گئى ہو، فكر اسلامى كا مطلب ہے عقلى اصولوں كى روشنى ميں ايمان، اسلام، عبادات، معاشرت، معاملات، تہذيب، اخلاق اور تاريخ وغيره كى تشريح كرنا، عقلى اصول جس قدر پخته ہوں گے اسى قدر فكر مستحكم ہوگى، اسلام كى ہر وه تشريح جو عقل سے مستغنى ہو وه نا پائيدار ہوگى، اور اسے ہرگز فكر نہيں كہا جا سكتا۔اسلامی فکر کا مطالعہ صرف متون یا تاریخ کو سمجھنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک جامع عمل ہے جس ميں خیالات، تصورات اور ثقافت کو ان کے زمانی اور اجتماعی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش شامل ہے، تاریخی فہم، متنی تجزیے، اور معاصر مسائل کے ساتھ تعامل کے ذریعے، ایک محقق اسلامی فکر کی تجدید اور نئى دنیا میں اس کى افاديت کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اساس:اسلامى فكر كے بنيادى مقومات صرف دو ہيں: كتاب الہى اور سنت نبوى، يه دونوں مقدس ہيں، فكر اسلامى كى كوئى تشريح خواه كسى عالم وفقيه يا فلسفى ودانشور نے كى ہو، نصوص كا درجه نہيں حاصل كرسكتى، بلكه ہر تشريح كے جانچنے كا معيار يہى…

Read more

اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز

از: ڈاکٹر محمد اعظم ندوی بعض لوگ جہاں جاتے ہیں، اپنے ساتھ روشنی لے کر آتے ہیں، ان کی مسکراہٹ خلوص سے بھری ہوتی ہے، ان کے الفاظ دلوں میں اترتے ہیں، اور ان کی موجودگی ایسی ہوتی ہے جیسے کسی خزاں رسیدہ چمن میں بہار یا خشک سالی میں آبشار، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے وجود سے دوسروں کو زندگی کا احساس دلاتے ہیں، جو خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے ہیں، جو دوسروں کے لیے باعثِ راحت ہوتے ہیں، جن کے قریب بیٹھنے سے انسان کو اپنے دکھ ہلکے محسوس ہوتے ہیں، اور جن کی صحبت میں رہ کر زندگی کی خوبصورتی اور اس کے بانکپن کا احساس ہوتا ہے، ایک پُر بہار شخصیت کسی موسم کی محتاج نہیں ہوتی، وہ ہر جگہ اور ہر حال میں اپنی خوشبو بکھیرتی ہے، لوگوں کے لیے باعثِ محبت بنتی ہے، اور دنیا میں خیر کا استعارہ بن جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”إِنَّ هَذَا الْخَيْرَ خَزَائِنُ، وَلِتِلْكَ الْخَزَائِنِ مَفَاتِيحُ، فَطُوبَى لِعَبْدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ مِفْتَاحًا لِلْخَيْرِ مِغْلَاقًا لِلشَّرِّ، وَوَيْلٌ لِعَبْدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ مِفْتَاحًا لِلشَّرِّ مِغْلَاقًا لِلْخَيْرِ” (سنن ابن ماجہ: 238).(یہ خیر خزانے کی مانند ہیں، اور ان خزانوں کی کنجیاں بھی ہیں، اس بندے کے لیے خوشخبری ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خیر کی کنجی، اور شر کا قفل بنا دیا ہو، اور اس بندے کے لیے ہلاکت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شر کی کنجی، اور خیر کا قفل بنایا ہو)۔ متاثر کن شخصیت وہ ہوتی ہے جس میں نرمی اور سختی، ہنسی اور سنجیدگی، مروت اور خود داری، وقار اور انکسار سب اعتدال کے ساتھ جمع ہوتے ہیں، ایسا شخص نہ تو ایسا پھول ہوتا ہے جو چھونے سے بکھر جائے اور نہ ایسا کانٹا جو ہر ایک کو زخمی کر دے، “شدة من غير عنف ولين من غير ضعف” (سختی ہو تشدد نہ ہو، نرمی ہو کمزوری نہ ہو)، اس میں وہ ٹھہراؤ ہوتا ہے جو دریا کے بہاؤ کو وقار عطا کرتا ہے، وہ گہرائی ہوتی ہے جو سمندر…

Read more

Other Story