آج ہمارے معاشرے میں جو خرابی ،بد خواہی ،بدسلوکی،کردار سوزی اور حق تلفی ہے ، اس کی بنیادی وجہ ایمان اور خوف خدا اور تقویٰ کی کمی کے ساتھ ساتھ عمل صالح سے بے توجہی ہے ، لوگوں نے ایمان واسلام کے دائرے کو مسجد و مدرسے کے حد تک محدود کردیا ،بلکہ اکثر مسلمان کی سوچ یہ ہے کہ معاملات کی دنیا میں ہم آزاد ہیں ،جس طرح چاہیں زندگی گزاریں،معاملات میں ازد ہیں کوئی بات نہیں ،ظاہر ہے یہ سوچ بہت منفی سوچ ہے،یہی وجہ کہ آپس میں دوری،نفرت زیادہ ہوتی جارہی ہے ،محبت و انسیت کی فضا کم ہوتی جارہی ہے ،قریب کے لوگ دور ہورہے ہیں ،اور دور کے لوگ قریب ۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب لوگوں کے اعمال درست تھے تو ان کے قائدین اور حکمران بھی اچھے تھے ،خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیز جیسے نیک دل وہردل عزیز حاکم تھے ،امن وامان کی عام فضا تھی،حضرت عمربن عبد العزیز کے عہد مبارک میں امن و امان کی صورتحال یہ تھی کہ پانی کے ایک گھاٹ سے بکری اور بھیڑیا ساتھ ساتھ پانی پیا کرتے تھے ،انسان کیا جانور بھی ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرتے تھے ۔
لیکن آج افسوس ہے کہ غزہ اور لبنان میں انسان انسان کا خون اس طرح بہا رہا ہے کہ قبرستان کی زمین دفن کے لیے تنگ ہوچکی ہے ،بنو آدم کی بے حرمتی کی جارہی ہے، حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللّٰہ کی بات صادق آرہی ہے کہ کوئی موذی جانور اپنے جنس کے جانور پر ظلم نہیں کرتا ،یعنی شیر شیر پر ظلم نہیں کرتا ،بھیڑیا بھیڑیا پر زیادتی نہیں کرتا ،لیکن انسان اتنا بدترین ہے وہ اپنے ہی جنس کے انسانوں کا خون بہا رہا ہے المعاذ باللہ
سوال یہ ہے کہ انسان جانور سے بدتر کیسے اور کیوں ہوگیا تو اس جواب یہی ہے کہ انسانوں نے مقصد حیات اخرت کی کامیابی کو پس پشت ڈال کر دنیا کی زندگی اور عیش و آرام اور جاہ و منصب کو ہی آخرت پر ترجیح دے دی ہے ،اور خوف خدا اور عمل صالح کو ترک کردیا ہے ،اس لئے ہمارے ملک اور پوری دنیا میں بدامنی اور قتل وقتال کا بازار گرم ہے دعا ہے اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کی صحیح سمجھ عطا کرے تاکہ انسان کا احترام اور پاس و لحاظ کرسکے
از: قاضی محمد حسن ندوی حال مقیم بھروچ