نور اللہ جاوید
مشہور ادیب اور نامور انشاء پرداز، عظیم صحافی، محقق، مصنف مولانا عبد الماجد دریا بادی رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے کہ’’بہار کی سرزمین آج سے نہیں گوتم بدھ کے زمانے سے پر بہار چلی آرہی ہے،کیسے کیسے عالم ،درویش، حکیم، ادیب،مورخ ، شاعر اسی خاک سے اٹھے اور یہیں کے خاک میں مل کر رہ گئے۔ یہ وہی بہار ہے جس کا پانی کوئی غبی پی لے تو وہ ذہین ہو جائے ،یہ گیان کی سرزمین ہے‘‘۔اگر بہار کے موجودہ گرگٹ نما سیاست دانوں کو فراموش کردیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ بہار ہمیشہ سے پر بہار اور مر دم خیز رہاہے، علماء ، صلحاء ، اولیاء ، صوفیا، ادباء ، اور شعرا کا مرکز رہا ہے، بہار کی تاریخ کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تین قدیم مذاہب جین مت، ہندو مت اور بدھ مت کی تاریخ اسی بہار کی سرزمین سے جڑی
ہوئی ہے۔
بہار کا ویشالی ضلع کی تاریخ کومہابھارت کی تاریخ سے جوڑا جاتا ہے۔مورخین کایہ بھی دعویٰ ہے کہ 600سال قبل مسیح یہاں سب سے پہلی جمہوری حکومت قائم تھی ۔ ویشالی ضلع بدھ ازم اورجن مت کے حوالے سے بھی کافی اہم ہے۔یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گوتم بدھ اپنا آخری پیغام اسی سرزمین سے دیا تھا۔جین دھرم کے بانی مہاویر کا جنم استھان بھی ویشالی ہے۔ویشالی دراصل راجہ ویشال سے منسوب ہے اور مہابھارت میں انہیں ایک عظیم بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔گوتم بدھ اس سرزمین کا متعدد مرتبہ دور ہ کیا ۔ جب راجہ اشوک نے اس دھرم کو اپنا یا تو انہوں نے اپنا ایک اسٹمپ یہاں بنایا تھا۔ایک دور میں ویشائی تجارت اور فنون لطیفہ کے مرکز کے طور پر بھی متعارف تھا۔مسلمانوں کی تاریخ کے حوالے سےبھی یہ پورا خطہ تاریخی ہے۔1857 کے انقلاب کے بعد نو آبادیات اور علاحدگی پسندگی کی مخالفت میں اس علاقے کی اہم شخصیات نے تاریخی کردار ادا کیا ۔ان میں شفیع دائودی کا نام سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔شفیع دائودی تحریک آزادی کے وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے نواآبادیاتی بھارت کے خلاف جہاں جدو جہد کی وہیں فرقہ واریت اور ہم آہنگی کے قیام میں بھی اہم رول ادا کیا اور جب انہیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے تو انہوں نے ایک مسلم لیڈر کے طور پر اپنی ذمہ دارادا کرنے سے گریز بھی نہیں کیا۔(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد کی کتاب نوآبادیات اور علاحدگی پسندی کی مزاحمت مظفر پور کے مسلمان کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔)
کہتے ہیں کہ شخصیت سازی کے عناصر ترکیبی میں ماحول ، خطہ ، مقامی تہذیب و ثقافت کا اہم کردار ہوتا ہے۔مولاناثنا الہدی قاسمی کی شخصیت سازی میں ان عناصر تراکیبی کا اہم کردار نظرآتاہے ۔فکر ی بلندی ، وسعت ظرفی ، تاریخ اور ادب پر گہری نظر کے ساتھ حق گو ئی و بےباکی جو ان کا شخصیت کا حصہ وہ دراصل اس مٹی کے گہرے اثرات کا نتیجہ ہے۔ مولانا کی علمی و دینی اور ادبی خدمات کے کئی اہم پہلوئوں ہیں ۔ مستند عالم دین، کامیا ب و بافیض استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ پر ان کی گہری نظر ہے اور حالات حاضرہ کے نباض بھی ہیں ۔زبان و ادب پر ان کی گرفت کسی سکہ بند ادیب سے کم نہیں ہے۔گزشتہ تین چار دہائیوں سے ملی تنظیموں اور اپنے وقت کے عظیم شخصیات سے رفاقت اور سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے وہ ملت شناس اور ملت اسلامیہ کے راہ نما بھی ہیں ۔ادب و ثقافت کے شاہ سوار ہیں ۔ادب کے مختلف اصناف پر انہیں دسترس حاصل ہے۔شاعری، فکشن و نان فکشن اور ایک نقاد کے طور پر بہار میں ہی نہیں ملک میں اپنی پہچان رکھتے ہیں ۔اس لئے مولانا کے کسی بھی تصنیف پر نقد و تبصرہ مجھ جیسے طالب علم کو کسی بھی درجے میں زیب نہیں دیتا ہے۔مولانا کے قلمی سفر کی جو عمر ہے وہ میرا پورا وجود ہے۔مولانا کی علمی و دینی عظمت میرے دل کے نہاں خانے میں عہد طفولیت سے ہی قائم ہے ۔مولانا سے میرا پہلا تعارف اس وقت سے ہے جب میں شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ رہا تھا۔یادش بخیر مادر علمی مدرسہ امدادیہ اشرفیہ سیتامڑھی کے طالب علمی دور میں ہی ’’شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور تحریک آزادی‘‘ کے عنوان سےمولانا کا مضمون پہلی مرتبہ پڑھنے کا موقع ملاتا۔وہ درو ہے اور آج ہے ۔میں مولانا کے قلم کے سحر میں مبتلا ہوں۔ایک طرح سے مولانا ساحر بھی ہیں جو ان کی تحریر و تقریر ایک مرتبہ پڑھ یا پھر سن لیتا ہے وہ مولانا کے سحر میں مبتلا
ہوجاتا ہے۔
مولانا کے گہر بار قلم سے تین درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور علمی حلقے میں معروف ہوچکی ہیں ۔’’یادو ں کے چراغ ‘‘ کی یہ پانچویں جلد ہےجس کا آج رسم اجر ا ہے۔یہ کتاب شخصیاتی خاکے پر مشتمل ہے۔علمی ، ادبی ، سماجی شخصیات پر تسلسل کے ساتھ لکھنا اور ان کی سماجی و علمی اور ادبی خدمات کا مختصر مگر جامع انداز میں سادہ انداز میں بیان کرنا اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا صالح معاشرہ کی تشکیل اور عرفان حق اور منزل و مققصود تک رسائی میں شخصیات کا مطالعہ بہت ہی اہم ہے۔مشہور اسلامی اسکالر پروفیسر خورشید احمد نےتاریخی اور مختلف شعبوں میں اہم خدمات انجام دینے والی شخصیات کے مطالعہ پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
تاریخ بلاشبہ انسانوں اور تہذیبوں کی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان ہے، یہ وہ آئینہ ہے جس میں زمین کے طول و عرض میں اور ہردور میں قوموں کے عروج و زوال اور تہذیبوں کے فروغ اور بربادی کا منظر ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اول روز سے تاریخ مسلمانوں کی دل چسپی کا ایک موضوع رہی ہے۔خود قرآن پاک میں ماضی کی اقوام کی داستانوں کو جس طرح سے بیان کیا گیا ہے وہ تاریخ میں دل چسپی اور تاریخ سے سبق لینے کیلئے رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلسفہ تاریخ کے باب میں پہلی کامیاب اور راہ کوشش مسلمانوں کی رہین منت ہے اور اس کا سہرا ابن خلدون کے سر ہے۔جس کے مقدمہ تاریخ کے بعد تاریخ کے مطالعہ کا اسلوب ہی بدل گیاہے۔
گو تاریخ کا کینوس بہت ہی وسیع ہے ۔وہ محض شخصیات کی حیات اور کارناموں کا نام نہیں لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں ہے کہ تاریخ سازی میں انسانی کردار اور خصوصیت سے قیادت کا کردار بڑا نمایاں رہا ہے۔کار لائل نے تو مبالغہ کی حدتک دعویٰ کیا ہے کہ تاریخ گھومتی ہی ہیروز کے اردگرد ہے۔لیکن اس بارے میں تو کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ تاریخ کے بنائو بگاڑ میں نظریہ ،وژن اورقوت و سائل کے ساتھ قیادت کا ہمیشہ مرکزی کردار رہا ہے ۔نظریہ اور وژن کی تشریح و توضیح و قوت کے حصول اور وسائل کے مناسب درد و بست اور ترقی میں قیادت کا کردار نمایاں اور فیصلہ کن رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے عمل ،اس کی سمت اور اس کے اثرات کو سمجھنے کے لئے ان شخصیات کی زندگی ،افکار اور کارناموں سے واقفیت کلیدی
حیثیت رکھتی ہے جو تاریخ کے معمار ہے۔
شخصیات کے حوالے سے لکھنا اور حقائق و معروضات کی راہ پر چل کر غلو اور بے جا عقیدت کے اظہار سے دامن کو بچا کر ممدوح شخصیت کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالنا اور مکمل طور پر انصاف کرنا پل صراط کے سفر سے زیادہ خطرناک ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس راہ کے مسافر عام طور پر اپنے دامن کو غلو وعقیدت سے داغدار کرجاتے ہیں ۔
عقیدت میں اس قدر مبتلا ہوتے ہیں اساطیری کہانیا ں اور حقائق سے ماوار ہوکر شخصیت کو عظمت و رفعت کی داستانیں گڑھی کردی جاتی ہیں۔کبھی کبھی تفریط کے اس قدر شکار ہوجاتے ہیں کہ شخصیت کے قد کو چھوٹا کرنے کے فراق میں سچائی اور انصاف سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں ۔’’یادو ں کے چراغ ‘‘ کی یہی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔نہ اس میں بے جا غلو و عقیدت کا اظہار ہے اور نہ ہی اس کیلئے سنی سنائی باتوں کا ذکر ہے ۔نہ کسی ہم عصر شخصیات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے قد کو چھوٹا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
بلکہ مولانا نے شخصیات کی صالح فکر اور مثبت قدروں کو پیش کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔میں نے یادوں کے چراغ کے بیشتر جلدوں کا مطالعہ کیا ہے۔میرے علم میں یادو کے چراع کی سیریز مولانا کی وسعت قلبی اور معلومات کے دائرکار کو بھی نمایاں کرتا ہے۔مولانا نے اپنے جن معاصرین پر قلم اٹھایا وہ کسی ایک مخصوص حلقے سے نہیں آتے ہی ۔ان میں علما و صلحا،ادیب و شعرا، سماجی شخصیات، صحافی برداری، سیاسی شخصیات شامل ہیں۔بلکہ مولانا نے ان گم نام شخصیتوں پر قلم اٹھایا ہے اگر وہ اس پر قلم نہیں اٹھاتے تواس شخصیت سے دنیا کبھی واقف بھی نہیں ہوتی ۔مجھے یاد نہیں ہے کہ یادو ں کے چراغ کے کس جلد میں مولانا ثنا الہدی نے بہار کے مشہور بریلوی عالم دین جوشاعر بھی ہیں ۔۔۔۔مولانا کمالی کا ذکر انتہائی عقیدت و احترام سے کیا ہے۔مولانا کمالی اور مولانا ثنا الہدی قاسمی کی فکر و نظر، مکتب فکر میں بعدین کا تعلق ہے۔مگر مولانا ثنا الہدی نے مولانا کمالی کی شاعری عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔دراصل میدان تحریر نوآزمود کیلئے ایک بڑا سبق بھی ہے۔کوئی بڑا مصنف یا پھر انشاپرداز متعصب اورتنگ نطر نہیں ہوسکتاہے۔اگرکسی فکر یا نظریہ سے اختلاف درج کرانا بھی ہے تو معروضیت اور حقائق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔
یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔پہلے حصے میں علما و مشائخ کا ذکر ہے ، دوسرے حصے میں شعرا و ادبا ،اساتذہ وصحافی حضرات کا ذکر ہے۔تیسرا باب’’بھولے بسرے لوگ‘‘ کے ذکر پر مشتمل ہےاور چوتھے باب تین زندہ شخصیات کی زندگی کو قلم بند کیا گیا ہے۔’’یادوں کے چراغ‘‘ سوانحی خاکہ ہے یا پھر اردو اب کے ایک اور صنف تذکرنگاری ہے۔ظاہر ہے کہ یہ خالص ادبی بحث اس میں الجھے بغیر یہ بات کہی جاسکتی ہے اس کتاب کے مشمولات کے مطالعے سے مصنف صالح فکر اور مثبت سوچ کی رہنمائی ملتی ہے شخصیات پر قلم اٹھانے کیلئے تنازعات میں پڑنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی شخصی عظمت کو قائم کرنے کیلئے لفاطی ضروری ہے۔
اگر سادہ اور سیدھے انداز مگر جملہ و بیان کی ساخت کا لحاظ کرتے ہوئے بات کی جائے تو دل تک دستک دیا جاسکتا ہے۔مولانا نے الفاظ و متبادل اور استعارات کے ذریعہ اپنی ادبی قابلیت کا رعب قائم بغیر بہت ہی سادہ مگر سلیس اور صاف ستھری زبان میں شخصیات کا تعارف اس طرح سے لکھاہے کہ قاری جب شروع کرتا ہے تو مضمون مکمل کئے بغیر کتاب بند نہیں کرتا ہے۔
کتاب کے ابتدائیہ میں پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ’’حرف چند‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’’زیر نظر کتاب یادوں کے چراغ مختلف شخصیات پر لکھی گئی ان کی شخصی و تاثراتی تحریروں کا مجموعہ ہے۔جسے انہوں نے سوانحی خاکہ کا نام دیا ہے۔خاکہ ادب کی ایک معروف صنف ہے کے اپنے تقاضے ہیں مجھے ان تحریروں میں خاکہ سے زیادہ تذکرہ کی کیفت دکھائی دیتی ہے‘‘۔
مگر میں یہاں پر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی علمی و ادبی عظمت کےاعتراف کے ساتھ اختلاف کرنے کی جرأت کرتے میںکہنا چاہتا ہوں کہ مولانا نے اپنی اس کتاب کو سوانحی خاکہ زمرے میں شامل کیا ہے ۔اس معاملے میں وہ حق بجانب بھی ہیں کیوں کہ ’’ادب لطیف کی ایک قسم خاکہ نگاری ہے ۔کہتے ہیں کہ خاکہ وہ تحریر ہے جس میں خاکہ نگار کسی انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو اس طرح اجاگر کرے کہ وہ شخصیت قاری کو ایک زندہ شکل میں نظرآئے اورخاکہ نگار نے اس انسان کی زندگی کا جس قدر مشاہدہ کیا ہو غیر جانب داری سے اس سے متعلقہ حالات اور واقعات کو قاری کے مطالعے میں لے آئے ۔خاکہ نگاری ایک سیدھی سادھی تعریف یہ بھی ہے کہ جب ہم کسی کا خاکہ پڑھیں تو اس کی شخصیت سے متعارف ہوتے چلے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ اس شخصیت کے تمام پہلوئوں سے آگاہی حاصل ہوجائے۔
سوانحی خاکہ اس کی تعریف کے تناظر میں دیکھا جائے تو یادوں کے چراغ میں انسانی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو اس طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ شخصیت کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کی علمی و دینی خدمات سے بھی تعارف ہوتا ہے۔اخیر میں اپنی گفتگو کا اختتام پروفیسر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے اقتباس سے کرتا ہوں۔
’’ مفتی ثنا الہدی قاسمی نثرکے آدمی ہیں اور ہر موضوع پر بلاتکان یکساں رفتار سے لکھتے ہیں ۔اس لئے ان کا اسلوب بھی سادہ رواں اور سلیس ہے۔وہ زبان کی باریکیوں سے واقف ہیںاور کس موضوع کو کس اسلوب میں برتنا ہے اس پر گہری نظر رکھتے ہیں‘‘ ۔۔