راست گوئی و دیانتداری
آپ کی راست گوئی اور دیانت مکہ میں ضرب المثل تھی ، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کہتے تھے ، خود ابو جہل بھی اعتراف کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے نہیں ہیں ، لیکن کہتا تھا کہ جو باتیں آپ پیش کررہے ہیں ، وہ صحیح نہیں ہے ، آپ نے جب بادشاہ روم کو دعوت اسلام کا مکتوب لکھا ، اس وقت ابو سفیان روم ہی میں تھے ، جو اس وقت آپ کے سخت مخالف تھے ، چنانچہ شاہ روم نے ابو سفیان سے آپ کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا وہ دعوی نبوت سے پہلے جھوٹ بھی بولتے تھے ؟ ابو سفیان نے کہا : نہیں ، غرض کہ دشمنوں کو بھی آپ کی راست گوئی کا اعتراف تھا ، دیانت داری کا حال یہ تھا کہ دشمن بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے ، چنانچہ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو اہل مکہ کی بہت سی امانتیں آپ کے پاس تھیں جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کے حوالے کرکے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سچ بولنے اور دیانت داری کو قائم رکھنے کی خاص طور پر تاکید کرتے تھے ، ایک موقع پر ارشاد فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو تو میں تم کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں ، بات کرو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو پورا کرو ، تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو دیانت کے ساتھ واپس کرو ، اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کرو نگاہوں کو پست رکھو یعنی غیر محرم عورتوں پر نظر نہ جماؤ اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ، یعنی ظلم نہ کرو۔
ایفاء عہد کا آپ کو بڑا لحاظ تھا صلح حدیبیہ میں جو شرطیں طے پائیں ، آپ ان پر سختی سے قائم رہے ، بعض مظلوم مسلمانوں کی قابل رحم حالت دیکھ کر بھی وعدہ خلافی کرنا گوارہ نہ کیا ، غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ ایک تہائی سے بھی کم تھی ، اس لئے ایک آدمی کی اہمیت تھی ، چنانچہ عین جنگ کے وقت حضرت حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان ( جن کا اصل نام حسیل بن جابر تھا) کہیں سے آرہے تھے ، کہ ان دونوں کو اہل مکہ نے پکڑ لیا ، اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ آپ کا جنگ میں ساتھ نہیں دیں گے ، یہ حضرات مسلمانوں کے ساتھ غزوات میں شریک ہونا چاہتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس کردیا ، اور فرمایا کہ ہم ہر حال وعدہ پورا کرنے کے قائل ہیں ، نبوت سے پہلے ایک صاحب سے معاملہ ہوا وہ آپ کو بیٹھا کر چلے گئے کہ آکر حساب کر دیتا ہوں مگر ان کو خیال نہیں رہا تین دنوں کے بعد آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ تشریف رکھتے تھے ، آپ نے فرمایا: تین دنوں سے یہیں تمہارا انتظار کررہا ہوں
غرض آپ کی ذاتِ گرامی فضائل اخلاق کا نمونہ اور رذائل اخلاق سے مبرا تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اخلاق کی تعلیم دی بلکہ عملاً انھیں برت کر بھی دکھایا