از : قاضی محمد حسن ندوی
تینتیسواں فقہی سیمینار میں شرکت کے لئے نو نومبر کو علی الصبح جامعہ اسلامیہ بالاساتھ میں ہم چار احباب بحسن وخوبی پہنچے، تین دن وہاں ہم لوگوں کا قیام رہا ،یہ ادارہ حضرت مولانا عبد الحنان صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کیے خوابوں کی تعبیر اور ان کی للہیت کا مظہر ہے ، مدرسہ کی تعمیر اور ظاہری ترتیب و تزئین سے اندازہ ہوا کہ کسی باذوق شخص کا کردار اس میں نمایاں ہے ، جنہیں نہ صرف اپنے بیان اور خطابت کے جادو سے لوگوں کو مسحور کرنے کا ملکہ حاصل تھا ، بلکہ کم خرچ میں عمدہ اور شاندار عمارت کی تعمیر کا ذوق بھی حاصل تھا ، مسجد اور دیگر ساری عمارت میں یکسانیت پائی جاتی ہے ، مدرسہ میں نہ شور نہ ہنگامہ ، ہاں کانفرنس ہال میں فقہاء اور مفتیان کرام کا اجتماعی طور پر نئے مسائل میں بحث و مباحثہ کی مجلس گرم تھی تو دوسری طرف انتظامیہ اساتذہ طلبہ کی طرف سے پوری گرم جوشی کے ساتھ مہمانان کرام کو سہولیات پہنچانے میں ہمہ دم کوشش ہورہی تھی، مجموعی اعتبار سے تین دن کے قیام میں ہر مہمان کو وہاں سکون واطمینان حاصل ہوا۔ مقصد کی بازیابی میں کوئی دقت حاصل نہیں ہوئی ۔
نامور شخصیات کی زیارت:
اس سفر میں ہندوستان کے نامور شخصیات کی زیارت اور انکی اجتہادات اور نکتہ سنجی سے استفادہ کا موقع ملا ، اس کے علاوہ اساتذہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ، ان میں سر فہرست مفتی عتیق احمد بستوی صاحب ،مفتی جنید صاحب ندوی قاسمی پٹنہ ،اور ہم رکاب میں مفتی سعید الرحمن امارت شرعیہ بہار ،۔
پہلی نشست میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی نے اپنا کلیدی خطبہ پڑھا جو واقعی کلیدی کردار کا حامل ہے ، مولانا اظہار الحق صاحب ( خلیفہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب)نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ دین اسلام کے کئ شعبہ جات ہیں ، درس وتدریس ، دعوت وتبلیغ ، تصنیف وتالیف اور تزکیہ نفس ، اجتماعی کوشش سے سب دین کے شعبہ جات ہیں ، امت مسلّمہ پر ضروری ہے کہ ہر ایک شعبہ میں اپنی جان مال کی قربانی کو مرہون منت سمجھے ، لیکن یہ ممکن نہیں ، مگر ہاں یہ تو ممکن ہے ان شعبہ میں حصہ لینے والے کو ہم اپنا رفیق اور محسن سمجھیں ، کسی کو فریق نہ سمجھیں ، بلکہ ہر کے لئے دعا مغفرت کریں۔
فقہی سیمینار اور طریقہ کار:
مجموعی اعتبار سے پانچ موضوع پر سیمینار ہوا،جس کے لیے پانچ نشستیں ہوئیں،اکیڈمی میں اجتماعی فیصلہ کا طریقہ کار ہے ،پہلے سوال نامے تیار کرکے مقالہ نگار کو چار پانچ ماہ قبل بھیجے جاتے ہیں ،پھر وہ بڑی محنت اور کاوش کے بعد غیر منصوص فیہ مسائل کا جواب اصول اربعہ قرآن وحدیث اجماع اور قیاس کی روشنی میں مواد تیا کر کے بھیجتے ہیں ،پھر اس کی تلخیص ہوتی ہے ،اور ایک شخص اس کا ایک عرض تیار کرکے سیمینار ہال میں پیش کرتے ہیں ،اخیر میں مقالہ نگار کو مناقشہ میں حصہ لینے اور ان پہلوؤں کو پیش کرنے کا موقع دیا جاتا جو تلخیص یا عرض میں نہیں آیا ہے، پھر جن کا مقالہ ہوتا ہے انکی ہر موضوع پر ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے ، پھر یہ کمیٹی بحث و مباحثہ کے بعد جو تجویز پاس کرتی ہے اسے آخری نششت میں پڑھی جاتی ہے ،اور اکابرین کی نگرانی نوک پلک درست کر کے اکثر کے اتفاق سے فیصلے ہوتا ہے ،اس سال میں نے دو موضوع پر مقالہ لکھا تھا ،
(انٹرنیٹ کے ذریعہ دعوت وتبلیغ)
(خواتین کا گاڑی چلانے کا حکم )
سیمینار کے دوسرے دن
سیمینار کے دوسرے دن حضرت مولانا عبد الحنان صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ،ان سے حیات میں پہلی اور آخری ملاقات 1995 میں دار العلوم ماٹلی والا بھروچ میں فقہی سیمینار کے موقع پر ہوئی تھی،مولوی وقار متعلم دار العلوم ماٹلی والا بھروچ میرے رہبر تھے ،آپ حضرت مولانا عبد الحنان صاحب کے چشم وچراغ ہیں ،انکی درخواست پر ان کے دولت خانہ پر تھوڑی دیر کے لئے حاضری ہوئی ،ان کے والد سے ملاقات ہوئی ،نیز ان کے محلہ کی مسجد کو دیکھا جہاں مولانا ہرسال تراویح سناتے ہیں ،محلے والے ان کا خوب اکرام کرتے ہیں ۔
شاگردوں پرحضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کی شفقت کی ایک مثال
دوسرے دن ناشتہ سے قبل استقبالیہ کے سامنے حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی صدر مسلم پرسنل لا بورڈ سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی ،علیک سلیم کے بعد مولانا نے ایک جملہ کہا ،مولوی اسجد کا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا الحمدللہ بخیر ہے ،اس پر کہا علی گڑھ میں میرے دوعزیز ہیں ،دونوں محنتی ہیں ،ایک اسجد دوسرے مولانا برجیس صاحب کے فرزند ،اندازہ کیجئے مولانا کی شخصیت عالمی ہے ،آپ سے روزانہ کتنے طلبہ اور مستفیدین ملاقات کرتے ہوں گے ؟ اس کے باوجود اسجد کا نام لیکر خبر لینا یہ آپ کی یاد داشت اور طلبہ پر اساتذہ کی طرف سے جو شفقت ہوتی ہے وہ پہلو نمایاں نظر آیا، گرچہ حضرت مولانا متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن امت مسلمہ کی قیادت سائنس اور متعصب حکومت کی طرف سے شریعت مطہرہ کے خلاف ہونے والے فیصلے یعنی وقف بورڈ ایکٹ میں ترمیم کی ناجائز کوشش جیسے چیلنج کا بڑی حکمت عملی سے دفاع کررہے ہیں ،امید ہے کہ ضرور حکومت فیصلہ کو واپس لیں گے
نہیں ہے نہ امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو کہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
سیمینار کے دوسرے ہی دن گجرات سے آئے ہوئے بالخصوص ان مہمانان کرام سے ملاقات کی جن سے دار العلوم ماٹلی والا بھروچ میں شناسائی تھی ، مولانا فاروق صاحب جو برطانیہ سے تشریف لائے تھے ، دار العلوم ماٹلی والا کے فارغ ہیں انہوں نے بڑی اپنائیت کا اظہار کیا ،اسی طرح مفتی امتیاز صاحب مہتمم دارالعلوم سپون اور قاری جابر صاحب سے استاذ دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ سے بھی ملاقات ہوئی ۔
وطن میں دو دن قیام
وطن میں صرف دو دن قیام کا موقع ملا ،والدہ اور بھائی بہن سے ملنے کے ساتھ ساتھ کئ بیماروں کی عیادت کا شرف حاصل ہوا ،بالخصوص میری ساس جو تقریباً ایک ماہ سے بیمار ہیں ،اسی طرح میرے چچیرے بھائی حافظ شمیم صاحب انکی بھی خبر لی جو کافی دنوں سے بیمار ہیں دعا ہے اللہ تعالیٰ سبھوں کو صحت کاملہ مستمرہ عطا فرمائے آمین
ایک ٹی ٹی کی ہمدردی اور مفید مشورے
واپسی کا ٹکٹ داناپور پٹنہ سے تھا ،اس لئے کل ظہر کی نماز اور ظہرانہ سے فراغت کے بعد گھر سے روانہ ہوا ،امید تھی وقت سے قبل پہنچ جائیں کے ،لیکن مظفرپور حاجی پور پل پر ایسی رشک تھی کہ دو گھنٹے تاخیر ہوگئی ،نتیجہ یہ ہوا کہ جب اسٹیشن پر پہنچا تو دو منٹ قبل گاڑی کھل چکی تھی ،بالاخر اسی روٹ پر دوسری گاڑی کھڑی تھی ، اللّٰہ کے نام سے بیٹھ گیا اس امید کہ ساتھ آگے اسٹیشن پر اپنی گاڑی پر چلا جائوں گا ،بہر حال دعا کی وجہ سے بکسر کے بعد وہ ٹی ٹی صاحب آئے اور کہا مولانا مغل سرائے میں اتر جائے گا آپ کا جس میں ٹکٹ ہے وہ آدھا گھنٹہ لیٹ سے چل رہی ہے ،میرے تینوں لڑکے رابطے میں تھے ان لوگوں نے کہا یہاں گاڑی چینج کر لیجیے چنانچہ ایسا ہی کیا ،یہ تو میرے لڑکے تھے جو تین بجے تک رات تک رابطے میں رہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹی ٹی کیوں بکسر میں آکر اس بات کی اطلاع دی ،ان کو ہم سے کیا تعلق ؟گرچہ یہ غیر مسلم تھے ،میں نے ذہن سے سوال کیا تو اس کا جواب یہ سمجھ میں آ یا کہ تمام تر نفرت اور ہندو مسلم تفرقہ کی بات کے باوجود ہندوستان کی سرشت میں اب بھی محبت و ہمدردی کی بو باقی ہے جس کا مظاہرہ اس ٹی ۔۔ٹی صاحب نے کیا
( PDF)تجاویز