*@مختصر_کالم*
بہار میں جمعیۃ علماء ہند (الف) کا ایک عظیم الشان اجلاس منعقد ہوا، جس میں اندازہ ہے کہ دو لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔ قائد جمعیۃ مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقدہ اس اجلاس میں مختلف اہم موضوعات زیر بحث آئے، جن میں سے وقف ترمیمی بل کی مخالفت بھی اہم موضوع تھا۔ اس اجلاس کے لیے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ تاہم، حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ نتیش کمار نے اس
دعوت کو نظر انداز کرتے ہوئے اجلاس میں شرکت نہیں کی نتیش کمار کی غیر حاضری کو صرف مولانا ارشد مدنی یا جمعیۃ علماء ہند کی دعوت کو ٹھکرانے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ یہ پورے بہار کے مسلمانوں کی دعوت کو ٹھکرانے کے مترادف ہے۔ یہ واقعہ واضح طور پر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ بہار کے مسلمانوں کی نتیش کمار کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رہی۔ ان کے اس رویے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اب انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی بھی پرواہ نہیں رہی۔
زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نتیش کمار کے اس طرز عمل کے باوجود کچھ مسلم سیاستدان اور رہنما ابھی بھی ان کے حمایتی بنے ہوئے ہیں۔ وہ یا تو سیاسی بصیرت سے محروم ہیں یا پھر اپنے ذاتی مفادات کے لیے نتیش کمار کی چاپلوسی کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے رویے کے بعد جنتا دل یونائٹڈ (جدیو) سے جڑا ہر مسلمان سیاستدان فوراً اپنی حمایت واپس لے لیتا اور اس جماعت سے خود کو الگ کر لیتا۔ لیکن یہ سیاسی بے حسی اور بصیرت کی کمی ہے جو بہار کے مسلمانوں کو ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے سے روکے ہوئے ہے۔
نتیش کمار کی اس حرکت کو بہار کے مسلمانوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت اور ووٹ کی اہمیت کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اگر بہار کے مسلمانوں نے اس واقعے کو نظرانداز کیا تو یہ ان کی سیاسی کمزوری کا ایک اور ثبوت ہوگا۔*
از: آفتاب اظہر صدیقی*کشن گنج، بہار26 نومبر 2024ء