مفتی سلیم احمد خان
استاد: مدرسۃ العلوم الاسلامیہ، علی گڑھ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں فطری تقاضے ودیعت کیے ہیں، ان میں اہم تقاضا صنف نازک کی طرف میلان ہے، اس رجحان اور میلان کے ذریعے اللہ عزوجل انسان کو آزماتا ہے کہ وہ ورع و تقویٰ، اطاعت و فرماں برداری میں کس مقام پر ہے نیز نسلِ انسانی کی افزائش و تسلسل برقرار رکھنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ اس فطری تقاضے کو افراط و تفریط سے بچانے اور اعتدال و توازن قائم کرنے کے لیے شریعت میں ایک منظّم طریقہ ‘‘نکاح’’ ہے، جس کو نہ صرف جائز؛ بلکہ مستحسن امر قرار دے کر اس کی ترغیب دی گئی ہے اور تجرّد و تنہائی کی زندگی کو ناپسند کیا گیا ہے۔
نکاح کو شریعت نے نہایت آسان سادہ اور اخراجات کے لحاظ سے سہل بنایا ہے، اسلام کے طریقۂ نکاح کا خلاصہ یہ ہے کہ دو بالغ مرد و عورت دو گواہوں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی رشتے کو قبول کر لیں۔ نکاح کا بس یہی سیدھا سادہ طریقہ ہے، اِس میں کسی تقریب کی ضرورت ہے نہ کسی دعوت کی کوئی شرط؛ البتہ دلہن کے اکرام کے لیے مہر ضروری ہے۔
مہر انسانی عصمت کے اظہار کے لیے شریعت میں شوہر پر بیوی کا ایک خاص مالی حق ہے، جس کا مقصد بیوی کا اکرام و احترام ہے اور شریعت کا منشا یہ ہےجب کوئی شخص نکاح کر کے بیوی کو اپنے گھر لائے،اس کا اپنے شایان شان اکرام و احترام کرے اور ایسا ہدیہ پیش کرے جو اس کی عصمت و حرمت کے مناسب ہو؛ لیکن آج کل اس سلسلے میں ایک غلط سوچ رائج ہوگئی ہے کہ یہ (مہر ) عورت کی قیمت ہے، اس کو ادا کرکے یہ سمجھا جاتا ہے ہے کہ وہ عورت اب اس مرد کی مملوکہ ہےاور اس کی حیثیت ایک باندی کی ہے، جو یقیناً غلط ہے؛ چوں کہ یہ شریعت کے مقصد و منشا کے بالکل مخالف ہے۔
مہر کی مشروعیت
قرآن کریم کی آیت: وآتوا النساء صدقتهن نحلة۔(النساء: ۴) اور بیویوں کو خوش دلی کے ساتھ ان کا مہر ادا کرو۔ اسی طرح دیگر مقامات پر بھی مہر کی ادائی اور اس کے مختلف احکامات بیان کیے گئے ہیں، جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔حضور اکرمﷺ نے متعدد نکاح فرمائے اسی طرح اپنی بیٹیوں کے نکاح بھی کروائے سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۰: 2. وامرأة مؤمنة ان وهبت نفسها للنبي ان اراد النبي ان يستنكحها خالصة لك من دون المؤمنين۔ (الاحزاب:۵۰) (کوئی مومن عورت جس نے مہر کے بغیر نبی کو اپنے آپ (سے نکاح کرنے) کی پیشکش کی ہو (ایسی عورت سے حضور کو خصوصی طور پر نکاح کی اجازت دی گئی ہے)لیکن اس کے باوجود حضورﷺنے مہر کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیز امت کو تعلیم دینے کے لیے تمام ازواج مطہرات سے نکاح کرتے وقت ان کے لیے مہر مقرر فرمایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مہر کی ادائیگی کی اہمیت کا اندازہ حضرت عائشہ کی رخصتی کے واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے، حضور کے حضرت عائشہ سے نکاح کے بعد رخصتی میں تاخیر ہو رہی تھی حضرت ابوبکرؓ نے حضور سے اس کی وجہ معلوم کرنی چاہی، آپ نے مہر کے لیے رقم نہ ہونے کا عذر پیش کیا، حضرت ابوبکر نے عرض کیا مجھ سے قرض لے لیں،حضور نے آپ سے قرض لے کر مہر ادا کیا، اس کے بعد حضرت عائشہ کی رخصتی ہوئی۔ غور کریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی میں اس وقت تک تاخیر کی جب تک مہر کی ادائیگی ممکن نہ ہو سکی۔ (سیرت عائشہؓ، ص:۳۱)
مہر کے اقسام
حضورﷺ اور صحابہؓ کی سیرت سے چار قسم کی مہر کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ چاروں اقسام انسان کی مالی حیثیت کے اعتبار سے ہیں۔ لہذا ان چاروں اقسام میں سے کوئی بھی قسم اپنی حیثیت کے اعتبار سے اختیار کر لی جائے، وہ خلاف سنت نہیں ہوگی۔ بلکہ شریعت سے ثابت شدہ مہروں میں سے کسی ایک قسم کے مہر کے زمرے میں داخل ہوگی۔
پہلی قسم:
ایسے لوگوں کا مہر جن کا گزر بسر روز کی کمائی پر ہوتا ہے، ایسے لوگوں کی کمائی کا سلسلہ اگر ہفتے دس دن کے لیے رک جائے تو دوسرے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور قرض لینے کی نوبت آجاتی ہے، ایسے لوگوں کے نکاح میں کم از کم مہر متعین کرنے کا حکم ہے۔اقل مہر امام ابو حنیفہ کے نزدیک 10 درہم ہے۔ اس طبقے کے لیے اپنی حیثیت کے اعتبار سے 10درہم(30 گرام 618 ملی گرام) چاندی یا اس کی قیمت کا لحاظ کرتے ہوئے،مہر متعین کرنا مسنون ہوگا جو وہ آسانی کے ساتھ ادا کر سکیں، ان لوگوں کے لیے مہر فاطمی مسنون نہیں ہوگا۔ بلکہ ان کے حیثیت کے مطابق کم سے کم مہر متعین کرنا ہی ان کے لیے مسنون ہوگا۔ اسی کو حدیث شریف میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔قال عمر: ألا لا تُغالوا بصُدُقِ النِّساءِ فإنَّها لو كانت مكرمةً في الدُّنيا أو تقوى عندَ اللَّهِ كانَ أَوْلَاكُم بِها النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ ما أصدقَ رسولُ اللَّهِﷺ امرأةَ نسائِهِ ولا أصدَقت امرأةٌ من بناتِهِ أَكثرَ من ثنتي عشرةَ أوقيَّةً۔(ابو داؤد:۲۱۰۶)حضرت عمر نے فرمایا کہ خبردار تم عورتوں کے مہر بہت گراں اور اتنے زیادہ متعین مت کرو جو شوہروں پر بار بن جائے اس لیے اگر زیادہ مہر متعین کرنا دنیا کے اندر عزت کی چیز ہوتی، یا اللہ کے نزدیک تقوے کی چیز ہوتی تو اس معاملے میں اللہ کے نبی تمہارے مقابلے میں زیادہ حقدار ہوتے۔ میں نہیں جانتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست کسی عورت سے نکاح کیا ہو یا اپنی بیٹیوں میں سے کسی کا نکاح کر دیا ہو 12 اوقیہ یعنی 500 درہم سے زیادہ پر
اس روایت سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:• زیادہ مہر باندھنا جس کی ادائیگی شوہر کے لیے مشکل ہو، وہ خلاف سنت ہے۔ شوہر اگر اپنے روزگار اور کمائی کے اعتبار سے مہر فاطمی کی ادائیگی کی اہلیت نہیں رکھتا، ایسى صورت میں مہر فاطمی متعین کرنا مسنون نہیں۔ ایسا مہر متعین کرنا جو شوہر کے لیے دشواری کا سبب بنے،نہ عزت کی چیز ہے،نہ عند اللہ تقوے کی چیز، نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت کے مطابق۔ ابتداء ہجرت کے وقت جب تنگی کا زمانہ تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ کے ساتھ نکاح فرمایا، ان کا مہر صرف دس درہم متعین کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات جیسا کہ حضرت ام سلمہ کا مہر دس درہم کے برابر تھا۔ حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ سے 10 درہم کی قیمت کے سامان پر نکاح فرمایا۔ •
حضرت عمر فرماتے ہیں 500 درہم سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست نہ ازواج مطہرات میں سے کسی کا مہر متعین کیا اور نہ ہی صاحبزادیوں میں سے کسی کا، بلکہ اس سے کم ہی طے کیا،ادنی درجے کی خوشحال لوگ ان کے لیے مہر فاطمی یا اس سے نیچے نیچے کی مقدار مہر متعین کرنا مسنون ہوگا، اس سے زیادہ مسنون نہیں ہوگا۔
دوسری قسم
مہر فاطمی؛ جو مسلمانوں کے درمیان بہت زیادہ شہرت یافتہ ہے، اس کی مقدار کے بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں، سلف صالحین اور ہمارے اکابر نے 500 درہم کے قول کو زیادہ راجح قرار دیا ہے؛ کیوں کہ حضرت علی کی زرہ کی قیمت کا حساب 500 درہم ہی ہوتا ہے، اسی کو فروخت کر کے حضرت فاطمہ کا مہر ادا کیا گیا تھا۔
تیسری قسم:
مہرام حبیبہ؛جس کی مقدار ابو داؤد اور نسائی وغیرہ کی روایت کے مطابق چار ہزار درہم ہے، مہر فاطمی کے آٹھ گنا موجودہ زمانے کے گراموں کے حساب سے 12 ہزار 244 گرام 944 ملی گرام، یعنی 12 کلو 244 گرام 944 ملی گرام چاندی،حضرت ام حبیبہ کا یہ مہر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےنجاشی نے ادا فرمایا تھا۔ مہر کی یہ مقدار ادا کرنا ایسے لوگوں کے لیے مسنون ہوگا جو لکپتی اور کروڑ پتی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان لوگوں کے لیے یہ مقدار ادا کرنا کسی قسم کی گرانی کا سبب نہیں ہوگا، ایسے لوگوں کے لیے مہر فاطمی کے بجائے مہر ام حبیبہ متعین کرنا مسنون ہوگا۔ اس لیے کہ مہر ام حبیبہ جو نجاشی نے ادا کیا تھاوہ خلاف سنت نہیں ہے، اگر خلاف سنت ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس پر نکیر فرماتے، حضور نے نکیر نہیں کی، کیونکہ نجاشی کے پاس اتنی گنجائش تھی۔ لہذا ایسی گنجائش والوں کے لیے یہی مہر مسنون ہوگا۔
چوتھی قسم
حضرت ام کلثوم حضرت علی کی بیٹی ہیں، جو حضرت فاطمہ کے بطن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت عمر نے ان کے ساتھ 40 ہزار درہم مہر پر نکاح کیا تھا۔ 40 ہزار درہم کی مقدار مہر فاطمی سے 80 گنا ہوتی ہے، مہر ام حبیبہ کے دس گنا ہوتی ہے، جو لوگ کروڑ پتی، ارب پتی، امراء، سلاطین اور بادشاہوں میں سے ہیں، ان کے لیے مہر ام کلثوم کی یہ مقدار مہر میں متعین کرنا خلاف شریعت اور خلاف سنت نہیں ہوگی، کیونکہ حضرت عمر بھی خلفائے راشدین میں سے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علیکم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدین اس لیے حضرت عمر کا یہ عمل بھی سنت ہی کے دائرے میں ہوگا۔اس بات کا لحاظ ضرور رکھا جائے گا کہ حضرت عمر نے 40 ہزار درہم مقرر فرمایا تھا، اس وقت ان کے پاس اس مہر کی ادائیگی کی حیثیت تھی۔ لہذا اگر امرا و سلاطین میں سے کوئی اپنی بیوی کا مہر، مہر ام کلثوم متعین کرتاہے، اس میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے لیے مہر مقرر کرنے میں مختلف مقداریں تجویز کی ہیں جیساکہ ذکر کیاگیا، اکثر امہات المومنین کا نکاح 500 درہم مہر پر طے پایا۔ جیسا کہ روایت میں ہے:عن أبي سلمة بن عبد الرحمن انه قال سألت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم كم كان صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت كان صداقه لازواجه ثنتي عشرة اوقية ونشا قالت اتدرى ماالنش قال لا قالت نصف اوقية فتلك خمس مأة درهم فهذا صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم لازواجه۔ (مسلم: ٣٤٨٩)ابو سلمہ نے حضرت عائشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے مہر کے بارے میں پوچھا، وہ کتنا تھا؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضور کی بیویوں کا مہر ساڑھے 12 اوقیہ تھا،جو 500 درہم ہوتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کا مہر بھی 500 درہم مقرر فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقدار کو مہر فاطمی کہا جاتا ہے، جس کی مقدار آج کل کے اوزان کے اعتبار سے ایک کلو 531 گرام چاندی ہوتی ہے۔ اتنی مقدار چاندی کی اگر قیمت ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھر جس دن ادا کر رہے ہیں اس دن کی چاندی کی قیمت کے اعتبار سے حساب لگایا جائے گا، خواہ طے کرتے وقت اس کی کچھ بھی قیمت ہو۔ سونے چاندی کی صورت میں مہر کی تعین سنت سے قریب ہے، عورت کے لیے بہتر بھی؛ کیوں کہ سکوں کی مقدار دن بدن گھٹتی جاتی ہے۔ سکوں میں مقرر کیا ہوا مہر ایک مدت کے بعد اپنی قدر کھو دیتا ہے
مہر کی مقدار
شریعت میں اس بات کی صراحت ہے،مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے، نہ ہی کسی کے لیے یہ مناسب وہ مہر کی کوئی رقم مقرر کرے، اس سے زیادہ رقم طے نہیں کی جاسکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ خطبہ کے دوران لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘نکاح میں بہت زیادہ مہر مقرر نہ کرو۔اس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ قرآن کریم نے ایک مقام پر مہر کے لیے قنطار (سونے چاندی کا ڈھیر) کا لفظ استعمال کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے چاندی کا ڈھیر بھی مہر ہو سکتا ہے، پھر آپ زیادہ مہر مقرر کرنے سے کیوں روکتے ہیں۔ حضرت عمر نے اس خاتون کی بات سن کر اس کی تصویب فرمائی۔ ’’ (تحفۃ الاحوذی، ج:۴، ص: ۱۹۴)
حضرت حسن بن علی کے متعلق ذکر کیا ہے کہ آپ نے ایک خاتون سے نکاح کیا، اسے بطور مہر سو باندیاں بھیجیں اور ہر باندی کے ساتھ ایک ہزار درہم۔
مہر کی کم سے کم مقدار کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان مختلف رائے ہیں، امام ابو حنیفہ کے نزدیک مہر کی اقل مقدار 10 درہم ہیں۔ جو موجودہ اوزان کے اعتبار سے 30 گرام 618 ملی گرام ہے۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں فرمایا: لا مهر اقل من عشرة دراهم۔ (مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہیے۔)
مہر کی ادائیگی کے اعتبار سے مہر کی دو قسمیں مشہور ہیں؛1-مہر معجل۔ 2- مہر مؤجل۔ ‘‘مہر معجل’’ اس مہر کو کہتے ہیں جو نکاح ہوتے ہی شوہر کے ذمہ لازم ہو جاتا ہے، یا تو نکاح کے وقت ہی بیوی کو ادا کر دے، یا اس کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو، نیز عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اس کا مطالبہ کر لے، کوشش کرنی چاہیے جس قدر ممکن ہو، اس قرض سے سبک دوش ہو جائے۔‘‘مہر مؤجل’’ اس مہر کو کہا جاتا ہے جس کی ادائی کے لیے فریقین نے آئندہ کوئی تاریخ متعین کر لی ہو،تاریخ اس طرح متعین کر لی جائے اس سے پہلے اس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم نہیں ہوتی، نہ بیوی اس سے پہلے مطالبہ کر سکتی ہے، ‘‘مہر مؤجل’’ کا اصل مطلب تو یہی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عموما کوئی تاریخ مقرر کیے بغیر کہہ دیا جاتا ہے، اتنا ‘‘مہر مؤجل’’ ہے۔ معاشرے کی رواج کے مطابق اس کا مطالبہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ مہر کی یہ ادائیگی اس وقت واجب الادا ہوگی جب نکاح ختم ہوگا، یعنی زوجین کے درمیان اگر طلاق ہو جائے اس وقت ‘‘مہر مؤجل’’ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، یا پھر زوجین میں سے کسی کا انتقال ہو جائے، تب اس کی ادائیگی لازم سمجھی جاتی ہے، حد تو یہ ہے کہ بعض علاقوں میں انتقال کے بعد ترکہ میں سے دینے کے بجائے عورت سے مہر معاف کرا لیا جاتا ہے۔
مہر عورت کا ایسا حق ہے جو واجب الادا ہے۔ کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہوتا، حتی کہ اگر کسی مجلس نکاح میں مہر کا تذکرہ نہ بھی ہو اور مہر متعین نہ کیا جائے، تب بھی شریعت عورت کے لیے ‘‘مہر مثل’’ متعین کرتی ہے۔ ‘‘مہر مثل’’ کا مطلب مہر کی وہ مقدار ہے جو اس عورت کی ددھیالی خاندان کی عورتوں مثلا پھوپیوں، بہنوں یا چچازاد بہنوں کا مقرر کیا جاتا رہا ہو، اگر اس عورت کے خاندان میں دوسری عورتیں نہ ہوں تو خاندان سے باہر اس کی جیسی عورتوں کا جو مہر عموما طے کیا جاتا رہا ہو، وہ اس عورت کا “مہر مثل” ہے۔ یہ ‘‘مہر مثل’’ شوہر پر لازم ہوگا نیز شرعا شوہر پر واجب ہے کہ وہ بیوی کا مہر ادا کرے۔
بہر صورت یہ بات خوب سمجھنی چاہیے کہ مہر کا تعین فرضی یا رسمی کاروائی نہیں ہے جو بلا سوچے سمجھے طے کر لی جائے؛ بلکہ یہ ایک دینی فریضہ ہے جو پوری سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے، کوشش کرنی چاہیے کہ مہر کا کچھ نہ کچھ حصہ خلوت سے پہلے ادا کر دیا جائے، جیسا کہ روایات میں ملتا ہے کہ حضرت علی کا حضرت فاطمہ سے جب نکاح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت علی کو وصیت فرمائی اے علی اپنی بیوی سے ملنے سے پہلے ان کو کچھ دے دو۔
معلوم ہوا یہ تصور کہ مہر علیحدگی کے موقع پر ہی ادا ہو یا شوہر کی موت کے بعد ہی اس کے ترکہ میں سے ادا کیا جائے، غیر اسلامی اور جاہلانہ تصور ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ مہر کی تعین کو محض ایک رسمی عمل سمجھتے ہیں،اس کی ادائیگی کی کوئی فکر ہی نہیں کرتے، یہ سخت گناہ ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مہر مقرر کیا، اور اس کی ادائیگی کا ارادہ نہیں ہے تو وہ زانی ہے، بعض روایات میں ہے کہ قیامت کے دن وہ خدا کے حضور میں ایک زنا کار کی حیثیت سے پیش ہوگا۔٭٭٭