(1)
زمین کی تمام پیداوار میں عشر واجب ہے ، ایسی کاشت جس کی پیداوار انسانوں کے کھانے کے کام میں نہ آتی ہو یا ایسے درخت بجن کے پھل نہ کھائے جاتے ہوں ، لیکن معاشی نقطئہ نظر سے ان کی کاشت کی جاتی ہو ، جیسے گھاس اور بانس کیوڑہ وغیرہ تو ان میں عشر واجب ہوگا
(2)
اس مقصد کے لیے روئی اور گلاب کے پودے لگائے جائیں تو ان کی فصل پر بھی عشر واجب ہے ،
(3)
عشری زمینوں کے شہد میں بھی عشر واجب ہے ، اگرچہ وہ تجارت کی غرض سے جمع کیا گیا ہو ، البتہ اگر تجارت کی نیت سے خرید کیا ہو ، تو پھر ڈھائی فیصد کے لحاظ سے زکوٰۃ واجب ہوگی
(4)
ہندوستان کی زمینوں کے بارے میں علماء کا خیال ہے کہ یہ عشری ہیں اور ان کی پیدوار میں عشر ادا کیا جانا چاہیے
(5)
جو زمین بتائی پر لگی ہو تو مالک زمین اور کاشت کار اپنے حصہ پیداوار کا عشر ادا کریں گے
(6)
زمین کرائے پر لگائی گئی ہو تو پیداوار اور پٹہ دار پر عشر واجب ہوگا
(7)
پھل نکل آنے کے بعد اگر پیشگی عشر ادا کردے تو ایسا کرنا جائز ہے
(8)
عشر نکالنے کے بعد ہی پیداوار استعمال کرنی چاہیے
(9)
عشر واجب ہونے کے لیے پیداوار کا کوئی نصاب مقرر نہیں، کم و بیش جو بھی پیداوار ہو عشر واجب ہوگا
(10)
جو زمین پورے سال یا سال کے اکثر حصہ میں قدرتی پانی سے سیراب ہوتی ہو تو اس میں دسواں حصہ عشر ہوگا ، اور جس زمین کو پورے سال یا سال کے اکثر حصہ اپنی محنت سے سیراب کرنا پڑتا ہو اس میں بیسواں حصہ واجب ہوگا ،
(11)
کھیٹی پر جو دوسرے اخراجات ہل ، بیل ، مزدوری ، نگرانی وغیرہ کے آئے ہوں وہ منہا نہیں کیے جائیں گے
(12)
قرض اور دین بھی عشر سے منہا نہیں کیا جائے گا ، کل پیداوار پر عشر واجب ہوگا
بحوالہ: کتاب الفتاویٰ ج 3 ص 348