سوال نمبر: شوہر کا فون آیا تھا- بہت ساری بات کی وجہ سے جھگڑا ہو رہا تھا- فون پر تو میں ان سے بولی کہ اتنی اذیت میں رکھنے سے اچھا ہے کہ آپ مجھے طلاق دے دو- تو وہ بولے کہ تجھے طلاق چاہیے- تو میں بولی: ہاں! تو انہوں نے کہا: ہاں، ٹھیک ہے- میں تم کو آزاد کرتا ہوں، میں تجھے ہر طرح سے چھوڑتا ہوں-جب یہ سب باتیں گھر پر بولی- تو میرے گھر والوں نے پتہ کیا- تو شوہر بولا کہ غصہ دلائی تھی، تب بولا تھا-اس صورت میں طلاق ہوئی کہ نہیں؟
الجواب-و باللہ تعالیٰ التوفیق-:
اس صورت میں بیوی پر ایک طلاق بائن پڑ گئی؛ کیونکہ “میں تم کو آزاد کرتا ہوں”، میں “تجھے ہر طرح سے چھوڑتا ہوں”- اس میں برا بھلا کہنے اور تردید کا احتمال نہیں ہے- لہٰذا غصہ اور مذاکرہ طلاق اس بات کی دلیل ہیں کہ اس نے بہ ظاہر طلاق کے ارادہ سے ہی یہ الفاظ کہے ہیں- اس لیے ایک بائن طلاق پڑگئی- اب دوران عدت اور اس کے بعد نئے مہر کے ساتھ باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے- اگر فریقین راضی ہیں تو وہ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں-“الدر المختار” میں ہے: “أنت حرة، اختاري، أمرك بيدك، سرحتك، فارقتك، لا يحتمل السب و الرد، ففي حالة الرضا، أي غير الغضب والمذاكرة تتوقف الأقسام الثلاثة تأثيرا، على نية للاحتمال، والقول له بيمينه في عدم النية، و يكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم، فإن نكل فرق بينهما، مجتبى. و في الغضب توقف الأولان، إن نوى وقع و إلا لا. و في مذاكرة الطلاق يتوقف الأول فقط، و يقع بالأخيرين، و إن لم ينو؛ لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية؛ لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة، و لذا تقبل بينتها على الدلالة، لا على النية إلا أن تقام على إقراره بها، عمادية”. (حصكفى، الدر المختار، كتاب الطلاق، باب الكنايات 3/300-302، بيروت، دار الفكر، 1386ھ، ع.أ.:6)-
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب،
علمہ اتم و احکمکتبہ: العبد المفتقر الی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ:محمد شاہ جہاں ندویدار الافتاء والقضاء:جامعہ سید احمد شہید، احمد آباد، کٹولی، ملیح آباد، لکھنؤ، یوپی (انڈیا)226102