از: ابوفہد ندوی، نئی دہلی
یہ محض اتفاق نہیں کہ اللہ نے خود کے لیے “رب العالمین”، نبی ﷺ کے لیے “رحمۃ للعالمین” اور قرآن کے لیے “ذکر للعالمین” کی تراکیب استعمال کی ہیں۔ تینوں جگہ “العالمین” کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ ’’للعالمین‘‘ کا لفظ دیگر چیزوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے، جیسے بیت اللہ کو ’’ھدی للعالمین‘‘ کہا گیا ہے اور نوح علیہ السلام کی کشتی اور اس واقعے کو ’’آیۃ للعالمین‘‘۔ مگر بیانیے کا فرق بہرحال موجود ہے اور ’’العالمین‘‘ کی نسبت ہر جگہ یکساں معنویت کی حامل نہیں۔اللہ نے اپنے لیے “رب العالمین” کا خطاب یا تمغۂ امتیاز پسند فرمایا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے لیے “رحمۃ للعالمین” کا خطاب یا تمغۂ امتیاز۔ پھر اپنے اس امتیاز کو قرآن کی سب سے اہم اور سب سے عظیم سورہ، سورۂ فاتحہ کی پہلی ہی آیت میں بیان فرمایا اور وہ بھی تعریفی و توصیفی بیان کے پس منظر میں۔ قرآن کی توقیفی ترتیب میں یہی جملہ “الحمد للہ رب العالمین” فاتحۃ الکتاب ہے، یعنی سرنامۂ قرآن، جیسے دیوان کی پہلی غزل کا مطلع ہوتا ہے۔
اللہ نے سورۂ انبیاء میں نبی ﷺ کے خطاب و امتیاز کے بارے میں فرمایا:وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الأنبیاء: ۱۰۷)۔اور سورۂ توبہ میں نبی ﷺ کی اسی صفتِ رحمت کو اس طرح مؤکد کیا ہے:قَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُولٌ۬ مِّنۡ أَنفُسِكُمۡ عَزِيزٌ عَلَيۡهِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِيصٌ عَلَيۡكُمۡ بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ رَءُوفٌ۬ رَّحِيمٌ۬(التوبۃ: ۱۲۸)۔’’اے لوگو! یہ رسول جو تمہارے درمیان آیا ہے، یہ تمہاری اپنی ہی قوم سے ہے۔ تمہاری تکالیف اس پر نہایت شاق گزرتی ہیں، یہ تمہاری ہدایت کا طالب اور حریص ہے اور اہلِ ایمان کے لیے بطور خاص انتہائی مشفق اور مہربان ہے۔‘‘اور قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا:إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (ص: ۸۷)۔
قرآن کے لیے اسی نوعیت کے جملے مزید چار پانچ مقامات پر بھی وارد ہوئے ہیں۔
یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ان سب مقامات پر ’’مؤمنین‘‘ یا ’’مسلمین‘‘ کا لفظ نہیں بلکہ ’’العالمین‘‘ کا لفظ ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام ایک عالمی و آفاقی دین ہے۔ قرآن و رسول کی زمانی و مکانی نسبتیں گرچہ موجود ہیں، تاہم ان کا پیغام آفاقی اور عالمی ہے۔ اللہ نے اگرچہ تمام بنی نوع انسانی کو جبلی طور پر ہدایت یافتہ نہیں بنایا، تاہم اسے پوری بنی نوع انسانی کی ہدایت مطلوب ہے اور اس طرح مطلوب ہے کہ انسان اپنے فہم، علم اور شعور سے ہدایت و معرفت حاصل کرے۔یہ چاروں صفاتِ محمودہ، یعنی ربوبیت، رحمت، نصیحت اور ہدایت، باہم دگر مل کر ایک ایسا کلّاز بناتی ہیں کہ انسان کی نفع رسانی اور خیر خواہی کی کوئی بھی بات، کوئی بھی پہلو اور کوئی بھی جز اس کلّاز سے باہر نہیں رہتا۔ اور اللہ کی صفتِ رحمت ہی اصل اور بنیادی صفت ہے، اگرچہ اللہ کی اور بھی بہت سی صفات ہیں۔ خود قرآن سے اس بات کی شہادت ملتی ہے۔ سورۂ اعراف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا جواب دیتے ہوئے اللہ نے ارشاد فرمایا:قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الأعراف: ۱۵۶)۔’’اللہ نے فرمایا: اے موسیٰ! سزا تو میں صرف اسی کو دوں گا جسے میں سزا دینا چاہوں گا، مگر میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے۔‘‘یعنی رحمت تو عام ہے، مگر سزا صرف انہی کے لیے ہے جو اس کے مستحق قرار پا چکے ہیں، بلکہ ان میں سے بھی کتنے بخش دیے جائیں گے۔
اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ نبیِ رحمت کے لیے “رحمۃ للعالمین” سے زیادہ بہتر اور مناسب کوئی دوسرا خطاب نہیں ہو سکتا تھا۔ حالانکہ آپؐکو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بشیر، نذیر، شاہد، نور اور سراج وغیرہ کئی القاب و خطابات سے بھی نوازا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی اہم صفات ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، تاہم “رحمۃ للعالمین” ان سب میں کئی اعتبار سے اہم ہے۔ اور رحمت خود اللہ کی بھی بلند ترین صفت ہے۔
پھر یہ دونوں جملے، یعنی “رب العالمین” اور “رحمۃ للعالمین”، اپنی ظاہری ہیئت، یعنی صوری اور صوتی اعتبار سے بھی باہم دگر کتنے قریب ہیں۔ اور پھر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ رحمت، ربوبیت ہی کی جنس کی شے ہے، کیونکہ ربوبیت میں رحمت کا عنصر شامل ہے۔ ربوبیت کا کلی ظہور بنا ادنیٰ رحمت کے وجود کے ناممکن ہے۔ذات باری تعالیٰ میں یہ صفت اس درجے میں موجود ہے کہ اس کے اظہار کے لیے تنہا ایک لفظ کافی نہیں ہوا۔ چنانچہ ایک روٹ کے دو مختلف، مگر ہم معنی الفاظ “رحمان” اور “رحیم” کو جمع کیا گیا، تب جاکر اللہ کی صفت رحمت بیان ہو پائی۔ اور پھر قرآن کے دیگر مقامات پر بھی اسی ترکیب اور ترتیب کو اپنایا گیا۔
قرآن میں رسولِ رحمت کے اسمائے گرامی، یعنی احمد اور محمد، بس پانچ مقامات پر ہی آئے ہیں۔ ایک بار احمد اور باقی چار مرتبہ محمد۔ سورۂ صف میں احمد وارد ہوا ہے۔ ارشاد ہے:وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ (الصف:6)اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا رسول ہوں اور میں تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بعد ایک رسول کے آنے کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔باقی جن چار آیات میں اسم محمد آیا ہے وہ یہ ہیں:وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران:144)مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ (الأحزاب:40)وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ (محمد:2)مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح:29)
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ ان پانچوں مقامات پر احمد اور محمد نام سے رسول اللہ ﷺ کا جو ذکر ہے وہ رسالت کے حوالے سے ہے۔ آپؐ کے ذاتی معاملات ان آیات میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔پھر یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ رسالت مآب ﷺ کے یہ دونوں نام، یعنی محمد اور احمد، ایک ہی مادے “حمد” سے ہیں۔ اور ان دونوں ناموں سے یہ معنیٰ نکلتے ہیں کہ نبی ﷺ اللہ کی بہت زیادہ تعریف اور بہت زیادہ حمد و ثنا بیان کرنے والے ہیں، اور اللہ کی طرف سے بھی نبی ﷺ کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے۔ “احمد” یعنی بہت زیادہ تعریف کرنے والا، اور “محمد” یعنی وہ جس کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہو اور کی جاتی ہو۔رسول اللہ ﷺ کے لیے اللہ کی محبت اور تعریف و توصیف کے حوالے تو خود قرآن میں جا بجا موجود ہیں۔ سورۂ احزاب میں ہے:اِنَّ اللَهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)’’اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو، تم بھی ان پر درود بھیجا کرو۔‘‘
نبی ﷺ کے اسم گرامی، جیسا کہ مذکور ہوا، پورے قرآن میں صرف پانچ مقامات پر وارد ہوئے ہیں، جبکہ دیگر انبیائے کرام، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام سیکڑوں بار آیا ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اور یعقوب علیہ السلام وغیرہ کے اسمائے گرامی بیس، تیس، اور ساٹھ ستر مرتبہ تک آئے ہیں۔
یہ آپؐ کی خصوصیت اور قرآنی بیانیے کا امتیاز ہے کہ اللہ نے آپ کو نام سے نہیں پکارا۔ اسی لیے قرآن میں کہیں بھی “یا موسیٰ” یا “یا ابراہیم” کی طرح “یا محمد” یا “یا احمد” نہیں آیا ہے۔ البتہ “یا ایہا المزمل” اور “یا ایہا المدثر” کہہ کر ضرور مخاطب کیا ہے، مگر یہ اسم علم نہیں ہیں۔ پورے قرآن میں کہیں بھی آپ کے اسمائے ذاتی، یعنی احمد و محمد پر حرف ندا نہیں آیا، البتہ آپؐ کے اسمائے صفاتی پر حرف ندا ضرور آیا ہے۔
مزمل اور مدثر کے معنی و مراد تو واضح ہیں کہ ان الفاظ سے نبی ﷺ کو خطاب کیا گیا ہے، مگر ’’یٰس‘‘،’’طٰہ‘‘، اور’’حٰم‘‘ وغیرہ میں یہ معنی مبہم ہیں۔ حالانکہ مراد لینے والوں نے ’’والضحیٰ‘‘ سے چہرۂ مبارک کا نور اور “واللیل” سے زلف عنبریں کی خوشنمائی اور زیبائی بھی مراد لی ہے۔ گرچہ یہ معانی امکانی معانی سے بعید تر تو نہیں ہیں، تاہم ان کی مراد مزمل اور مدثر کی طرح واضح نہیں ہے۔
پھر قسمیں تو اللہ تعالیٰ نے قلم، زیتون، انجیر، اور شہر مبارک کی بھی کھائی ہیں، اور یہاں ان کے حقیقی معنی ہی مراد ہیں، اس لیے “والشمس”، “والضحیٰ”، اور “واللیل” میں بھی حقیقی معنی مراد لینا ہی زیادہ قرین قیاس اور اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ تخاطب میں ایسا اسلوب اختیار کرنے سے رسول اللہ ﷺ کی تکریم مقصود ہے۔ انسانی معاشروں میں بھی یہی طریقہ رائج ہے کہ بزرگوں اور معزز شخصیات کو ان کے ناموں کے بجائے القاب، صفات اور عہدے و مناصب کے ساتھ زیادہ پکارا جاتا ہے۔ حالانکہ نام لینے میں بھی یک گونہ محبت ہے۔ اللہ نے کس قدر محبت بھرے لہجے میں فرمایا ہے:وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ (طہ:17)موسیٰ علیہ السلام اس محبت بھرے تخاطب سے بے خود سے ہو گئے اور مختصر سا جواب “هِيَ عَصَايَ” دینے کے بجائے اپنی لاٹھی کے فوائد گنوانے لگ گئے:أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ (طہ:18)’’میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں، بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں، پھر اس کے اور بھی بہت سے کام ہیں۔‘‘اسی طرح نوح علیہ السلام سے فرمایا:قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ (ہود:48)’’فرمایا اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکات کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ۔‘‘
قرآن میں انبیاء کرام کی دینی و دعوتی زندگی کے بہت سے پہلو اور واقعات بیان ہوئے ہیں، جن میں سے بعض مختصر ہیں اور بعض طویل۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کی دینی و دعوتی سرگرمیوں کی روداد واقعاتی انداز میں بیان نہیں ہوئی، اور اس طرح تو بالکل بھی نہیں جس طرح موسیٰ و فرعون اور موسیٰ و خضر علیہم السلام کی روداد بیان ہوئی ہیں، یا جس طرح یوسف علیہ السلام کی داستانِ حیات بیان ہوئی ہے۔
قرآن میں اگرچہ آپؐ کے شخصی حالات بیان نہیں ہوئے اور اس طرح تو بالکل بھی نہیں جس طرح سوانحی کتابوں اور مضامین میں بیان ہوتے ہیں، جن میں خاندانی پس منظر اور متعلقہ شخص کے تمام احوال و کوائف حتیٰ کہ ان کے دوستوں اور بیوی بچوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ اور جس طرح احادیث میں مغازی اور شمائل نبوی کا ذکر ہے، قرآن میں اس طرح کی وضاحتوں اور متعلقات کی تشریحات کے ساتھ نہ مغازی کا ذکر ہے اور نہ ہی شمائل کا۔
یوں تو قرآن میں آپ کے نام سے ایک سورہ ’محمد‘ بھی ہے، اور اگرچہ یہ زیادہ طویل نہیں ہے تاہم اس میں بھی آپؐکے احوال و کوائف بیان نہیں ہوئے ہیں۔ پھر پورے قرآن میں یہی ایک واحد سورہ ہے جو اسم موصول سے شروع ہوئی ہے:الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ (محمد:1)لیکن قرآن کے بیانیہ اسلوب اور زیر بحث موضوع کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ اگر قرآن کا نزولی ترتیب پر مطالعہ کیا جائے اور آیات کا شانِ نزول بھی پیش نظر رکھا جائے، تو قرآن کے اس نوعیت کے مطالعے سے آپ کی سیرت کا بڑا حصہ بھی سامنے آجائے گا۔ پھر اگر اس مطالعے کے نوٹس بنائے جائیں تو عین ممکن ہے کہ آپؐ کی سیرت کا ایک روزنامچہ تیار ہو جائے۔ کیونکہ نزولِ قرآن وقتی حالات سے مربوط ہے، آپ کی زندگی میں واقعات جیسے جیسے رونما ہوتے گئے، قرآن کی آیات انہی واقعات و حالات کے اعتبار سے نازل ہوتی گئیں۔
نزولی ترتیب پر مطالعہ کرنے سے ایک تو سورتوں اور آیات کی نزولی ترتیب سامنے آجائے گی، اور دوسرے آپ کی بائیس سالہ زندگی کا روزنامچہ بھی مکمل ہو جائے گا۔ اور آپ کی سیرت کا بڑا حصہ ذہن نشین ہو جائے گا۔ مگر اس نوعیت کے مطالعے سے قرآن کی سورتوں اور آیات کے مابین جو ایک خاص نظم ہے اور خاص معنوی ترتیب ہے وہ منہا ہو جائے گی، جبکہ نظم قرآن متنِ قرآن کی تفہیم کے لیے بہت ہی بنیادی چیزوں میں سے ایک ہے۔قرآن میں نبی ﷺ کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ وعدہ سورۂ مائدہ میں بیان ہوا ہے:وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدۃ: 67)اور نہ صرف حفاظت کا وعدہ تھا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دشمن کی بربادی کا اعلان بھی تھا:إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ’’تمہارا دشمن ہی بے اولاد (بے نام و نشان) رہے گا۔‘‘اور پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ اللہ نے اپنے دونوں وعدے پورے فرمائے، رسول اللہ ﷺ کی حفاظت بھی فرمائی اور آپ کے دشمنوں کو نشانِ عبرت بھی بنا دیا۔
پھر یہ دیکھئے کہ اللہ نے کیسے حالات میں اپنے نبی کی حفاظت فرمائی۔ آپ چاروں طرف سے دشمنوں سے گھرے ہوئے تھے۔ مکہ و اطراف مکہ کے بڑے بڑے رئیس اور سردار آپ کے دشمن بن گئے تھے۔ بعض مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ سب نے مل کر آپ کے خفیہ قتل کی سازش رچی۔ قتل کی سازشیں تو انفرادی طور پر بھی کی گئی تھیں، مگر اجتماعی طور پر قتل کی سازش کرنا بڑی بات تھی۔ مگر اللہ کا وعدہ تھا کہ دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔ سو ایسا ہی ہوا کہ آپ کے دشمن پے درپے جنگوں اور گہری سازشوں کے باوجود آپ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے۔
اعلانِ نبوت کے بعد بھی آپ کم و بیش تئیس سال ان کے درمیان رہے اور اس طرح رہے جس طرح ایک عام آدمی اس وقت رہتا تھا۔ آپ نے اپنی سیکورٹی کے انتظامات بھی نہیں کیے تھے۔ آپ آزادانہ ہر جگہ آتے جاتے تھے، لوگوں سے ملاقاتیں فرماتے تھے، ان کے تنازعات حل کرتے تھے، وفود سے ملاقاتیں کرتے تھے، اور اس کے باوجود بھی آپ کے دشمن ہزار جتن اور سازشوں کے باوجود آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے۔
نہ جنگ کے میدانوں میں، نہ بیت اللہ کے سائے میں، نہ محلے کی گلیوں میں اور نہ ہی گھر کی چار دیواری میں۔ نہ دن کے اجالے میں اور نہ ہی رات کی تاریکی میں۔ آخر جنگ کے میدان میں انہوں نے حضرت حمزہ جیسے بہادر انسان کو بھی شہید کر ہی ڈالا تھا، دھوکے سے ہی سہی، مگر رسول اللہ ﷺ کو دھوکے سے بھی نقصان نہیں پہنچا سکے۔ اور اس کے باوجود نہیں پہنچا سکے کہ ان کی دشمنیوں کا پہلا ہدف آپ ہی تھے۔ نہ ان کے پہلوانوں اور جنگجوؤں نے آپ کا کچھ بگاڑ لیا، نہ ہی ان کے کاہن اور جادوگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔ نہ وہ علمی میدان میں آپ کے سامنے ٹھیر سکے اور نہ ہی قرآن کا کوئی جواب پیش کر سکے۔ اور نہ ہی زن و زر کا لالچ دے کر آپ کو اپنے مشن سے ہٹا سکے۔ یہ سب اسی لیے تھا کہ اللہ کی تائید اور نصرت آپ کو حاصل تھی۔
قرآن میں اہلِ ایمان کو تنبیہ کے انداز میں کہا گیا ہے:إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ وَكَلِمَةُ اللَهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (التوبة: 40)’’اگر تم ان کی مدد نہ کرو گے تو اللہ پہلے بھی ان کی مدد کر چکا ہے، جب انہیں کفار نے (مکہ سے) نکال دیا تھا اور وہ غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے: غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر اللہ نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جنہیں تم نہیں دیکھ رہے تھے۔‘‘
یہ ہجرتِ مدینہ کے وقت کا واقعہ ہے، جب آپ نے مکہ سے نکل کر غارِ ثور میں پناہ لی تھی۔ مکہ کے لوگ آپ کی تلاش میں صحرا کی خاک چھانتے پھر رہے تھے، کچھ دشمنی میں اور کچھ انعام کے لالچ میں۔ آپ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ تین دن اس غار میں گزارے۔ دشمن آپ کی تلاش میں غار کے دہانے تک پہنچ گئے تھے مگر انہیں آپ کی ذرا بھی بھنک نہیں لگ سکی اور آپ بحفاظت مدینہ پہنچ گئے۔ اور یہ سب اس لیے ہوا کہ اللہ نے آپ کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا اور قرآن کے ذریعے اس وعدے کا اعلان بھی کیا تھا۔
(جاری ہے)