:سوال
ایک گھریلو مجلس میں میں نے طلاق کے لیے اختیار کیے جانے والے غیر اسلامی طریقے کا ذکر کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا ۔ اس پر میری اہلیہ نے کہا کہ اگر میں آپ کے ساتھ ایسا ہی طریقہ اختیار کروں تو آپ کیا کریں گے؟ میری زبان سے غیر اراد تاً تین مرتبہ لفظ ’طلاق‘ ادا ہوا ۔ اس کے بعد مجلس میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی ۔ کچھ دیر بعد سب اپنے گھر چلے گئے ۔ پھر کئی دن تک ہمارے درمیان اس ضمن میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی ۔ ایک دن میری اہلیہ نے اپنی عالمہ بہن سے اس دن کی ہوئی گفتگو اور میری زبان سے ادا ہوئے لفظ ’طلاق‘ کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ تین طلاقیں واقع ہو گئیں اور نکاح ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے ۔
میں پورے ہوش و حواس سے کہتا ہوں کہ میری نیت قطعاً طلاق دینے کی نہیں تھی ، بس دورانِ گفتگو مذکورہ پس منظر کے ساتھ لفظ’طلاق‘ میری زبان سے ادا ہو ا تھا ، جس کا مجھے بہت افسوس ہے ۔ میری اہلیہ کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ طلاق واقع ہو گئی ہے ، جب کہ میں اور میرے گھر والے یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
جواب
:اس مسئلے پر چند باتیں عرض ہیں
بغیر کسی پس منظر کے یا کسی دوسرے پس منظر کے ساتھ زبان سے طلاق کا لفظ دہرانے سے طلاق نہیں ہوتی ۔ اساتذہ کلاس میں طلاق کے مباحث پڑھاتے ہیں تو ان کی زبان سے بار بار طلاق کے لفظ نکلتے ہیں ۔ شریعت کے احکام سمجھاتے ہوئے مقرر بار بار لفظ ’طلاق‘ کہتا ہے ، لیکن ایسا کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔
بیوی سے اختلاف اور تنازع کے پس منظر میں اگر کوئی شخص طلاق کہے تو اس وقت اس کا یہ کہنا معتبر نہیں ہوگا کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی ، بلکہ طلاق واقع ہوجائے گی ۔ البتہ اگر وہ علیٰحدگی والا کوئی اور لفظ استعمال کرتا ہے تو نیت کا اعتبار ہوگا ۔
اگر کوئی شخص لفظ طلاق تین بار کہے ، پھر دریافت کرنے پر قسم کھاکر کہے کہ اس کی نیت تین طلاق دینے کی نہیں تھی ، اس نے بس زور دینے کے لیے لفظ طلاق کو بار بار دہرایا تھا تو فقہ حنفی کے مطابق بھی اس کی بات مانی جائے گی اور ایک ہی طلاق واقع ہوگی ۔ (اگر وہ کہے کہ میں نے تین طلاق ہی دینی چاہی تھی تو تین ہو جائیں گی ۔) ایک طلاق ہونے کی صورت میں عدّت (تین ماہ واری) کے اندر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا اور عدّت کے بعد اگر عورت کی مرضی ہو تو نئے سرے سے اسی شوہر سے یا کسی اور فرد سے اس کا نکاح ہوسکتا ہے ۔ یہ بات آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے شائع شدہ’مجموعۂ قوانینِ اسلامی‘ کے نئے ایڈیشن میں صاف الفاظ میں درج کی گئی ہے :
“اگر کسی شخص نے طلاق دیتے ہوئے عدد کی صراحت نہیں کی ، مگر بار بار طلاق کا جملہ دہرایا ، مثلاً تجھے طلاق دی ، تجھے طلاق دی ، تجھے طلاق دی ، یا یوں کہا : تجھے طلاق ، طلاق ، طلاق ، تو ایسی صورت میں اگر طلاق دینے والا یہ اقرار کرے کہ اس نے دو یا تین بار لفظ طلاق دہراکر دو یا تین طلاق دینی چاہی ہے تو ایسی صورت میں دو یا تین طلاق واقع ہوں گی ۔ اور اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور اس نے محض زور پیدا کرنے کے لیے الفاظ طلاق دہرائے ہیں ، اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کا یہ بیان حلف کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا اور ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔“
(آٹھواں ایڈیشن ، جنوری 2023ء ، ص 233)
اگر کوئی شخص گنتی میں طلاق دے ، یعنی کہے : میں نے دو طلاق دی ، یا کہے : میں نے تین طلاق دی تو فقہ حنفی میں اتنی طلاق واقع ہوگی جتنی اس نے دی ہے ۔
صورتِ مسؤلہ میں میری رائے میں ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوئی ۔ اگر کسی کو اصرار ہے کہ طلاق ہوگئی تو بھی صرف ایک طلاق ہو سکتی ہے ، جس کے بعد عدّت کے اندر بیوی کے مرضی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے ۔