(1)
۔ مجلس تحقیقات شرعیہ ندوة العلماء لکھنؤ کے چھٹے فقہی سیمنار کا آغاز ہو چکا ہے، حسب تین اہم موضوعات زیر تحقیق ہیں:
جانوروں کی مصنوعی افزائش۔
یسر و تیسیر اور عصر حاضر کے تقاضے۔
بیع معدوم کی جدید شکلیں۔
اس افتتاحی نشست کی صدارت حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی نے کی اور بصیرت افروز خطبہ پیش کیا اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔
( 2)
۔ اجتماعی اجتہاد کا سب سے پہلا ادارہ “مجمع البحوث الإسلامية” الأزهر 1961 میں قائم کیا گیا، اس کے فورا بعد ہی31 دسمبر 1963 میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے ندوے میں مجلس تحقیقات شرعیہ کی بنیاد رکھی، اس کے تین سمینار منعقد ہوئے، انشورنس اور رویت ہلال جیسے اہم مسائل پر فیصلے کیے گئے۔ مولانا اسحق سندیلوی اس کے اولین ناظم مقرر کیے گئے تھے۔ہندوستان میں یہ ایک اہم کوشش تھی، مگر بدقسمتی سے یہ ادارہ معطل کر دیا گیا۔
اخیر دور میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی رحمہ اللہ کے ہاتھوں اس کی نشأت ثانیہ عمل میں آئی، معروف فقیہ اور باکمال مصنف حضرت مولانا عتیق احمد بستوی نے ایک نئی روح پھونکی، الحمد للہ گزشتہ چند برسوں میں یہ تیسرا سمینار منعقد ہو رہا ہے۔
( 3)
۔ ہندوستان میں اجتماعی اجتہاد کے حوالے سے ایک اہم نام اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا ہے، اسے عالمی سطح پر وقار و اعتبار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اکیڈمی کے فیصلوں کو پاکستان کی عدالتوں، عالم عرب کی مجامع فقہیہ اور عالم اسلام کی یونیورسٹیوں میں بحث و نقاش کا موضوع بنایا جاتا رہا ہے۔ جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں ماسٹرز کا ایک مقالہ اکیڈمی پر جمع کیا گیا ہے، الأزهر یونیورسٹی میں فقہ اکیڈمی کے بانی فقیہ النفس حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ کے فقہی افکار و خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھوایا گیا ہے۔فقہ النوازل کے عنوان سے چار جلدوں میں ایک کتاب طبع ہوئی ہے، اس میں مجامع فقہیہ کے فیصلوں کو ابواب کی ترتیب پر جمع کیا گیا ہے، اس کتاب میں بھی اکیڈمی کے تمام فیصلے شامل کیے گئے ہیں۔اللہ تعالی اجتماعی اجتہاد کی ان کوششوں کو قبول فرمائے۔
از : مفتی عمر عابدين قاسمی