خلع کے احکام
محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
ایک خاتون خلع لینا چاہتی ہیں ۔ ان کا نکاح تینتیس (33) برس قبل ہوا تھا ۔ ان کے دو بیٹے ہیں : ایک کی عمرا ٹھائیس (28) برس اور دوسرے کی پچیس (25) برس ہے ۔ ان کے شوہر نکاح سے قبل سعودی عرب میں کام کرتے رہے ۔ اب واپس آگئے ہیں ۔
خاتون کا کہنا ہے کہ شوہر کی جانب سے شروع سے انھیں جھڑکنے ، ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور بے اعتنائی برتنے کا سامنا کرنا پڑا ۔ بات بات میں پیسے کا ذکر ہوتا رہا ۔ انھیں سکون ، اپنائیت اور محبت نہیں ملی ۔ یہ رویہ اب ان کی برداشت سے باہر ہے ، اس لیے وہ خلع لینا چاہتی ہیں ۔
ان کی عمر پچپن(55) برس ہے ۔ دونوں بیٹے بھی باپ سے عاجز ہیں اور ماں کے ساتھ ہیں ۔ خاتون مہر واپس کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ شوہر بیوی بچوں کو ایک فلیٹ اور ایک پلاٹ دینے پر رضامند ہے ۔
براہ کرم اس مسئلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔ خلع حاصل کرنے کے لیے بیوی کو کیا کرنا ہے ؟ کیا خلع کے بعد شوہر گھر سے چلا جائے ؟ خلع کے کیا شرعی احکام ہیں ؟
:جواب
یہ بہت سے گھرانوں کی کہانی ہے ۔ جن خاندانوں میں شوہر طویل عرصے سے باہر ملازمت کرتے ہوں ، نکاح کے بعد انھیں بیوی کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہ ملا ہو ، چند دن ساتھ رہ کر واپس ملازمت پر چلے گئے ہوں، پھر سال در سال انھیں بس چند روز کے لیے گھر آنے اور بیوی بچوں کے ساتھ رہنے کا موقع ملتا ہو ، ان کے اور اہلِ خانہ کے درمیان گہری وابستگی نہیں پیدا ہو پاتی ۔ بیرونِ ملک ملازمت کی وجہ سے پیسے کی ریل پیل تو ہو جاتی ہے ، لیکن خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے صرف پیسہ کافی نہیں ہوتا ۔ بیوی بچے محبت ، اپنائیت ، توجہ اور سرپرستی بھی چاہتے ہیں ، جن سے عموماً وہ محروم رہتے ہیں ۔ مزید برآں اگر شوہر کا مزاج سخت یا خشک ہو ، وہ بات بات پر ڈانٹ دیتا ہو اور سخت سست کہتا ہو تو دوٗری اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس پر انحصار ختم ہونے کے بعد اس سے تعلق توڑ لینے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ بچے چوں کہ ابتدا سے ماں کے پاس رہتے ہیں اور باپ کی صورت شاذ و نادر ہی انھیں دیکھنے کو ملتی ہے ، اس لیے بڑے ہونے پر وہ باپ کے مقابلے میں ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں ۔ اگر کبھی ماں باپ کے درمیان کسی بات پر تنازع ہو جائے تو وہ ماں کے طرف دار ہوتے ہیں ۔ اس مسئلے کا حقیقی حل تو یہی ہے کہ نکاح کے بعد آدمی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے ۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو اور الگ الگ رہنا مجبوری ہو تو برابر اس کی خبر گیری کرتا رہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے اس کی تسکین اور اس کے احوال سے براہِ راست واقفیت کے لیے اس کے پاس جاتا رہے ۔ بچے ہو جانے کے بعد اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اس لیے کہ بچے ماں کے ساتھ باپ کی بھی قربت اور اس کا لمس چاہتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے اپنی صاحب زادی ام المومنین حضرت حفصہؓ سے دریافت کیا : عورت کتنے دن اپنے شوہر سے دوٗری برداشت کر سکتی ہے؟ انھوں نے جواب دیا : چار ماہ ۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے سرکاری آرڈر جاری کر دیا کہ سرحدوں پر فوجیوں کو چار ماہ سے زیادہ نہ روکا جائے ، بلکہ انھیں گھر جانے کے لیے چھٹی دے دی جایا کرے ۔
خلع کے بارے میں شریعت کا موقف بالکل واضح ہے ۔ کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ کسی بھی وجہ سے نہ رہنا چاہتی ہو تو اسے اس کا اختیار ہے ۔ وہ شوہر سے اس کا مطالبہ کرے ، جسے ماننا شوہر پر لازم ہے ۔ وہ یہ تو کر سکتا ہے کہ بیوی کو منائے اور اسے اپنے ساتھ رہنے پر آمادہ کرے ، لیکن اسے اس کا اختیار نہیں کہ وہ بیوی کی مرضی کے علی الرغم اسے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرے اور اس کا مطالبۂ خلع منظور نہ کرے ۔ البتہ شریعت کہتی ہے کہ خلع کی صورت میں عورت کو مہر واپس کرنا ہوگا ۔
عہد نبوی کا مشہور واقعہ ہے ۔ حضرت ثابت بن قیس ؓ کی بیوی نے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا : میں اپنے شوہر کے دین و اخلاق کے بارے میں کوئی الزام نہیں لگاتی ، لیکن میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔ آپ ؐ نے فرمایا : تمھیں بہ طور مہر جو باغ ملا تھا وہ واپس کرنا ہوگا ۔ وہ تیار ہو گئیں ۔ تب آپؐ نے حضرت ثابتؓ کو بلا کر فرمایا : “ باغ واپس لے لو اور طلاق دے دو ۔ ( صحیح بخاری : 5274 ، 5276)
اگر شوہر خلع منظور کرنے پر تیار ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ بیوی خلع کا مطالبہ کرے اور شوہر اسے منظور کر لے ۔ بہتر ہے کہ یہ کارروائی تحریری ہو اور اس پر دو گواہوں کے دستخط بھی کروا لیے جائیں ۔ خلع کی حیثیت ایک طلاق بائن کی ہوتی ہے ، یعنی آئندہ اگر دونوں پھر میاں بیوی کی طرح رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ ان کا نکاح ہو سکتا ہے ۔ خلع کی عدت بھی طلاق کی عدت کی طرح تین ماہ واری یا تین ماہ ہے ۔
شوہر اپنی مرضی سے بیوی بچوں کو ایک فلیٹ اور ایک پلاٹ دے رہا ہے تو یہ اچھی بات ہے ۔ وہ چاہے تو مہر بھی چھوڑ سکتا ہے ۔ لیکن اگر اس کا مطالبہ کرے تو عورت مہر واپس کرنے کی پابند ہوگی ۔
خلع کے بعد عورت اور بیٹے اس فلیٹ میں منتقل ہو جائیں جو شوہر نے دیا ہے ۔ اگر اس نے وہی فلیٹ دیا ہے جس میں وہ اب تک ساتھ رہتے تھے تو خود شوہر دوسرے فلیٹ میں منتقل ہو جائے ۔ خلع کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا مناسب نہیں ہے ۔
میری نظر میں یہ مسئلہ خلع سے پہلے کونسلنگ کا ہے ۔ شوہر اور بیوی دونوں کو الگ الگ ، پھر ایک ساتھ بٹھا کر بھی سمجھانے بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ شوہر سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنے مزاج میں نرمی پیدا کرے ۔ محض ڈانٹ ڈپٹ سے دلوں میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہیے ، نہ کہ پیسے کی دھونس جمائی جائے ۔ مال سے محبت نہیں خریدی جا سکتی ۔ بیوی اپنائیت اور محبت کے دو بول کی بھوکی ہوتی ہے ۔ اس سے محبت سے پیش آیا جائے تو وہ اپنی تمام شکایات فراموش کر دیتی ہے ۔ دوسری طرف بیوی کو یوں سمجھایا جائے کہ تمھارے آرام و آسائش کے لیے ہی شوہر نے دوری گوارا کی تھی ۔ اس لیے کبھی کبھی اس کی ناراضی کو برداشت کر لینا چاہیے ۔ ازدواجی زندگی اسلام میں پسندیدہ ہے ۔ اس لیے کچھ تکلیف گوارا کرکے اسے ترجیح دینی چاہیے ۔ پھر دونوں کو ساتھ بٹھا کر ایک دوسرے سے ان کی شکایتوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان سے عہد لینا چاہیے کہ وہ آئندہ کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے اور ایسا کام نہیں کریں گے، جو ان کے جوڑے کو ناپسند ہو ۔ کونسلنگ سے بہت سی شکایتوں کا ازالہ ہو جاتا ہے اور ساتھ رہنے کی آمادگی پیدا ہو جاتی ہے ۔