از: احمد نور عینی استاذ
استاذ : المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
زائد از ڈیڑھ صدی پہلے کی بات ہے، یعنی اس زمانے کی بات ہے جب ہندوستان جنت نشان کی سونا اگلتی دھرتی پر استعمار اپنے اقتدار کے پنجے بے رحمی کے ساتھ گاڑنے میں کامیاب ہورہا تھا، ہندوستان کا دل شہرِ دلی مغلیہ عظمت وشوکت کی آخری دھڑکنیں گن رہا تھا ، دلی کا مرکزِ اقتدار لال قلعہ انتقالِ اقتدار کا ماتم کر رہا تھا ، گویا مغلیہ سلطنت کا وہ آفتاب جو اورنگ زیب کے بعد لب بام آگیا تھا ہمیشہ کے لیے غروب ہوا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی زمانے میں اتر پردیش کے ایک مردم خیز خطہ اعظم گڈھ میں ایک ایسا آفتاب طلوع ہوتا ہے جو آگے چل کر علم کدوں میں تحقیق کی کرنیں بکھیرتا ہے، مخالفت کی ہوائیں ہر چند اس کی ضیا گستری کو بدلیوں کی اوٹ میں چھپانا چاہتی ہیں مگر اس کی کرنیں بدلیوں کا سینہ چیر کر نیچے اترتی جاتی ہیں۔ جس زمانے کی یہ بات ہے وہ ۱۸۵۷ ء کا سال ہے اوراعظم گڈھ کے جس آفتاب کا تذکرہ ہے اسے دنیا شبلی نعمانی کے نام سے جانتی ہے۔
علامہ شبلیؒ قافلۂ سخت جاں کے وہ سالار تھے جن کی صحرا نوردی کو ریگستانی ہواؤں کے جھکڑ بھی نہ روک سکے،اور جن کی آبلہ پائی کے نقوش آج بھی کاروانِ علم وتحقیق کو منزل کا پتہ دیتے ہیں۔ علامہ شبلیؒ کی شخصیت بیسویں صدی میں تعلیمی انقلاب کا عنوان ہے، مردم سازی و مصنف گری کا نام ہے، تخلیق وتحقیق سے عبارت ہے۔ علامہ شبلیؒ گوناگوں خصوصیات کے حامل اور مختلف صلاحیتوں کے مالک تھے، میدانِ ادب کے شہسوار بھی تھے اور اقلیمِ علومِ اسلامیہ کے تاجدار بھی ، تاریخ کے بحر متلاطم کے غوطہ خوار بھی تھے اور سیرت نگاری کے انوکھے اسلوب میں یکتائے روزگار بھی ، انگریزی کی ترویج کے لیے طبقۂ قدیم سے برسر ِپیکار بھی تھے اور قدیم صالح وجدید نافع کو جمع کرنےکے علم بردار بھی۔ دامنِ اسلام سے شبہات کے داغ دور کرناان کی فکر تھی، آریہ سماجیوں کے بڑھتے قدم کو روکنا ان کا دردِ دل تھا، تاریخ کو مستشرقین و معاندین کی زہر آلود تحریفات سے پاک کرنا ان کا مشن تھا، علم کلام کی تدوینِ نو ان کا عزم تھا، تعلیمی انقلاب اور اصلاحِ نصاب ان کی فکری وعملی مساعی کا محور تھا۔ جس زمانے میں انگریزی کے نام سے ہی لوگوں کی روح نکل جاتی تھی اور اختیاری مضمون کی حیثیت سے بھی اس کی تعلیم الحاد کی تخم ریزی تصور کی جاتی تھی، اس زمانے میں شبلی نے نہ صرف یہ کہ انگریزی زبان کو بہ حیثیت لازمی مضمون کے داخلِ درس کیا ؛ بل کہ انگریزی میں مہارت پیدا کرنے کے لیے مستقل دو سال کا کورس شروع کرنے کی تجویز پیش کی (حیات شبلی: ۳۳۶)۔ انگریزی کے لیے دو سال کے خصوصی کورس کا جو خواب شبلی نے دیکھا تھا اسے شرمندۂ تعبیر ہونے میں ایک صدی کا وقت لگا، گویا بیسویں صدی کے شروع میں شبلی جس بلند مقام پر کھڑے تھے وہاں تک پہنچنے میں اہلِ علم کے کارواں کو ایک صدی لگی۔
علامہ شبلیؒ نے جہاں اپنے قلم سے تاریخ کا مقابلہ کیا وہیں ندوہ میں ’صیغۂ تصحیح اغلاط تاریخی‘ کے نام سے ۱۹۱۰ء میں ایک شعبہ بھی قائم کیا، جس کا سکریٹری مولانا سید سلیمان ندویؒ کو بنایا، سید صاحب نے بہت محنت اور لگن سے کام کیا اور بہت سی تاریخی اغلاط کو جمع کرکے ایک رپورٹ تیار کی جو انھوں نے ندوہ کے سالانہ جلسہ میں پڑھ کر سنائی؛ لیکن افسوس کے تاریخ کا یہ شعبہ بہت جلد تاریخ کا حصہ بن گیا، اور شبلی کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے ہوتے پھر خواب کی شکل اختیار کرگیا؛ البتہ شبلیؒ کے دارالمصنفین نے تاریخ کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں تاریخ انھیں ضرور یاد رکھے گی۔
ہندی و سنسکرت کی تعلیم کے تعلق سے علامہ شبلیؒ کے دل کو بے چین رکھنے والی فکر اگر شبلیؒ کے بعد بھی مسلم قائدین کو بے کل رکھتی تو آج ہمارے ملک میں دعوت دین کا کام بھی آسان ہوتا، آر۔ ایس۔ ایس کے نفرت انگیز و زہر آمیز لٹریچر کا جواب بھی بہ حسن وخوبی دیا جاسکتا اور بھارتی سماج میں پھیلائی جانے والی نفرت کی آگ ہمارے لٹریچر کے سامنے سرد ہوتی نظر آتی۔ شبلیؒ کو گذرے ایک صدی ہوگئی ، مگر افسوس کہ دفاع اسلام کا یہ محاذ ابھی بھی مسلح سپاہیوں کی راہ دیکھ رہا ہے اور زبانِ حال سے یہ صدا لگا رہا ہے:کون سی وادی میں ہے ؟ کون سے منزل میں ہے؟عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں ؟! علامہ شبلی نے فضلا کی تربیتِ تحقیق وتالیف کے لیے دارالمصنفین کا خاکہ ندوہ کے زمانہ میں ہی بنالیا تھا لیکن ندوہ کے نامساعد حالات نے علامہ شبلی کو اس خاکہ میں رنگ بھرنے نہیں دیا ؛ مگر جب شبلی اس کوئے یار سے نکل کر اپنے دیار آئے تو اپنے خون جگر سے اس خاکہ میں رنگ بھرا اور دار المصنفین کے لیے فضلاکو مدعو کیا،عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں تیار تھا، قافلہ سالار پر عزم تھا کہمیں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کوشرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس میرا شعلہ بار ہوگا
فضائے دشت میں بانگِ رحیل گونجا ہی چاہتی تھی کہ میرِ کارواں راہیِ ملکِ عدم ہوگیا،اہل کارواں کو اس کا صدمہ ضرور ہوا ؛ لیکن یہ صدمہ ان کی راہ میں حائل نہ ہوسکا، شبلیؒ کے لائق و فائق شاگردوں نے شبلیؒ سے حاصل ہونے والی مذاقِ تحقیق و سلیقہ تصنیف کی میراث کو توشہ راہ بناکر اس کارواں کو ایسی کمالِ مہارت اور تیز رفتاری سے جادہ پیما کیاکہ سنگِ راہ دونیم ہوئے، غبار کارواں سے کارواں کی عظمت وعزیمت کا پتہ چلا اور ایسے نقوش ثبت ہوئے کہ آج بھی ان کے نشانِ قدم منزل کا سراغ دیتے ہیں۔ اختصاص کے شعبے ہوں یا انگریزی زبان کے گھنٹے، جدید علوم وفنون کی تدریس ہو یا جدید علمِ کلام مدون کرنے کی تجویز،تحقیق وتالیف کی تربیت ہو یا بہ طور مطالعہ تاریخ کا موضوع،آریوں اور سناتن دھرم یوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی درسگاہوں کا قیام ہو یامغربی حملوں کا جواب دینے کے لیے طلبہ وفضلا کی تربیت،سب کا سرِ رشتہ علامہ شبلیؒ کی فکر سے جڑتا نظر آتا ہے۔جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے