شرم و حیا
اسلام سے پہلے عربوں میں شرم کی بڑی کمی تھی ، لوگ کھلے عام برہنہ حالت میں غسل کرتے تھے ، قضاء حاجت کے وقت بھی پردہ کا اہتمام نہیں تھا ، یہاں تک کہ کعبہ اللہ کا طواف بھی بے لباس کیا جاتا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے حیائی کی ان تمام باتوں کو منع فرمایا ، صحابہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو شیزہ لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ، اور ہر موقع پر حیاء کا لحاظ کرتے تھے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم قدم پر حیا کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا ، کنواری لڑکی کے لئے شادی پر رضامندی کا اظہار حیا کے خلاف سمجھا جاتا تھا ، تو آپ نے ان کے لئے خصوصی رعایت فرمائی کہ اگر ان سے نکاح کی اجازت لی جائے ، وہ انکار نہ کریں ، اور خاموشی اختیار کرلیں ، تو یہی کافی ہوگا اور اسی کو اس کی اجازت سمجھا جائے گا: ” رضاھا صمت” اگر خواتین کوئی ایسا شرعی مسئلہ دریافت کرتیں جس کا تعلق صنفی عوارض سے ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارة جواب دیتے اور اپنا چہرہ پھیر لیتے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار لیٹے ہوئے تھے چادر مبارک پنڈلیوں سے ہٹی ہوئی تھی ، حضرت عثمان غنی جو خود بھی بہت شرمیلے واقع ہوئے تھے ، خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ، آپ سنبھل کر بیٹھ گئے ، اور اپنا جسم چھپا لیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کی اس قدر تاکید فرمائی کہ اس کو ایمان کا حصہ قرار دیا: ” الحياء شعبة من الإيمان” حضرت اشبح ابو القیس سے آپ نے فرمایا: تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں ، جو اللہ کو محبوب ہیں ، ایک حلم و بردباری دوسری شرم و حیاء۔
یہ مکمل مضمون مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب “پیغمبر عالم* سے لی گئی ہے
Very informative.. jazakallah khair
Ameen 💗