کتاب : سفرِ ہند
مصنف : ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
اشاعت : پی ڈی ایف
صفحات : 270
تعارف نگار : معاویہ محب اللّٰہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب کے نام سے حدیث کا ہر طالب علم واقف ہے، آپ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے قابلِ فخر سپوت اور عظیم چشم وچراغ ہے، حال ہی میں محدثات کے نام سے 40 جلدوں پر مشتمل کتاب تصنیف فرمائی ہے، اس کے علاوہ بہت ساری اردو، عربی اور انگریزی کتابوں کے مصنف بھی ہے، آپ کو تینوں زبانوں پر یکساں قدرت وملکہ حاصل ہے۔
زیرِ تعارف کتاب ڈاکٹر صاحب کے 2017 میں کئے گئے دورۂ ہندوستان کی روداد ہے، جو انہوں نے قسط وار مضامین کی صورت میں مخلتف گروپس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپلوڈ کئے تھے، دہلی، دیوبند ، مظفر آباد، سہارنپور، لکھنؤ ، اعظم گڈھ، ممبئی اور حیدرآباد کی یادوں پر مشتمل علمی، ادبی اور ثقافتی سفرنامہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو اللّٰہ تعالیٰ نے لکھنے کا غیر معمولی ملکہ عطا فرمایا ہے، جب لکھتے ہیں تو الفاظ کا تلاطم قابلِ دید ہوتا ہے، تحریر میں قوت اور جان ہے، الفاظ کو اس طرح پِرو دیتے ہیں کہ ایک ہی ہار کے نگینے معلوم ہوتے ہیں، اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والا طالب علم اس کتاب سے جھولی بھر الفاظ سمیٹ لیتا ہے، ڈاکٹر صاحب کا اسلوبِ تحریر انتہائی اجلا اور دلچسپ ہے، سطر سطر سے صاحبِ تحریر کی ادبی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ کے اسلوبِ نگارش کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں جہاں ندوۃ العلماء لکھنؤ کی یادوں میں مگن ہیں تو ہوں رقم طراز ہوتے ہیں ؛
" جس کی وسعتِ آغوش تشنگانِ علم وفضل کے لئے نئی زمین اور نیا آسمان تھی، جہاں وہ ہمہ تن گوش بن جاتے، آنکھیں وقف دید رہتیں، دل ودماغ ذوقِ استفسار سے مست ہوتے، واردانِ چمن سراپا سوز وسازِ آرزو، اور ادراکِ انسانی خرام آموز، جہاں ابر نیسان گہرباری اور در افشانی کرتا، جہاں وہ شمشادِ خراماں وآہنگ کناں گلستاں بستے، جن کے قد سے سر ودلجوئی سیکھتے، جہاں کا حسن وجمال آبِ رکنا باد وگلگشت مصلا کو فراموش کردیتا" (صفحہ 112)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں ؛
" جہاں فطرت کی خاموشی سے سبق سیکھے جاتے، جہاں سکوتِ گل ولالہ، ونالۂ بلبل ومرغِ خوش الحان کا راز واشگاف ہوتا، جہاں کہساروں اور آبشاروں کی زبان سکھائی جاتی، جہاں شبنم وبادِ سحری سے ہم کلامی ہوتی، مہر وماہ، کواکب ونجوم، آسمان وزمین، شجر وحجر اور مظاہرِ کائنات کا کھلی کتاب کی طرح مطالعہ ہوتا" (113)
بہر حال ندوۃ العلماء لکھنؤ کی یادوں میں جب گم ہوئے ہیں تو قلم توڑ دیا ہے، الفاظ موتی کی طرح رول رہے ہیں، ایسا لگتا ہے قلم نے اپنی تابانی کو ڈاکٹر صاحب کے خیالات کے ساتھ پورا سمجھوتا کرلیا ہے۔ اپنے وطن کی دیہی زندگی کو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں، ایک ایک ادا، ہر ہر مجلس وانجمن اور دوستوں کی بے تکلف محفلوں کو خوب اجاگر کیا ہے، ڈاکٹر صاحب اپنے سفرِ ہند میں جب کسی مقام، شخصیت، مجلس وانجمن کا تذکرہ کرتے ہیں تو بہہ پڑتے ہیں۔
دورانِ مضمون بر محل اشعار کا استعمال اس کثرت سے ہے کہبسا اوقات شرابِ طہور میں زمہریر کا مزہ دے جاتا ہے، کبھی مکمل شعر کو ادا کرتے ہیں تو کبھی ایک ہی مصرع سے کام چلا لیتے ہیں لیکن اتنا برمحل ہوتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے اسی جگہ کے لئے تخلیق کیا تھا۔
جہاں کہیں گئے ہیں علم کا فیضان لٹا دیا ہے، شیخ الحدیث محمد یونس جونپوری رحمہ اللّٰہ کی غیر متوقع وفات پر دل نکال کر رکھ دیا ہے، حضرت شیخ کے محاسن بیان کرتے کرتے بے شمار علمی نکات زیرِ بحث آگئے ہیں، حدیث کی بہترین معلومات جمع کردی ہے۔ مدرسۃ الاصلاح کے زیرِ عنوان فکرِ فراہی اور مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللّٰہ کی قرآنی خدمات کا خوب اعتراف کیا ہے، دیوبند کے تذکرہ میں بڑی آفرینی کا مظاہرہ کیا ہے۔الغرض پورا سفر نامہ علمی، ادبی، ثقافتی اور تربیتی دفینہ معلوم ہوتا ہے، دہلی، دیوبند، مظفر آباد، سہارنپور، اعظم گڈھ، لکھنؤ، ممبئی اور حیدرآباد کی یادوں کا حسین اور دلکش مجموعہ ہے، ہر باذوق طالب علم اور فکر ونظر سے دلچسپی رکھنے والے عالم کو یہ سفر نامہ ضرور پڑھنا چاہئے، راقم نے اسے دو بار دقتِ نظر کے ساتھ پڑھا ہے، اس میں سے بہت کچھ سیکھا اور حاصل کیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے!
میرے خیال میں کتاب پی ڈی ایف ہی کی صورت میں دستیاب ہے، اس کی اشاعت بھی سافٹ شکل میں ہی ہوئی ہے، اس کی تحریر میں جمیل نوری نستعلیق جیسا میانہ اور سیدھا نہیں ہے، نیز کتاب اکثر مواقع پر " ں " کی جگہ " ن " موجود ہے۔ ایسے ہی " بھی " کے بجائے " بہی"۔ کتاب میں فقرہ وغیرہ کا کوئی التزام نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کے مضامین کو بطور استفادہ یکجا جمع کرلیا گیا ہے، مستقل تصنیف کا ارادہ نہیں ہوگا۔
کتاب: سفر ہند
Related Posts
"مزاحمت” ایک مطالعہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم "مزاحمت”ایک مطالعہ اِن دنوں اردو ادب کی دنیا میں جو کتاب غیر معمولی شہرت، بےپناہ پذیرائی اور دلوں کی گہرائیوں سے اُبھرتی ہوئی محبت حاصل کر رہی ہے، وہ یحییٰ سنوار کے شہرۂ آفاق عربی ناول (الشوک والقرنفل) کا اردو ترجمہ "مزاحمت” ہے۔ یہ ترجمہ محترمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کا کارنامہ ہے،اور اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے ترجمہ نہیں کیا بلکہ اس عظیم ناول کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ حق یہ ہے کہ اس کتاب کو جو عزت، جو مقبولیت اور جو توجہ ملی ہے، وہ اسی کی مستحق تھی۔ اس میں وہ تمام تمنائیں، وہ خواب، وہ تڑپ اور وہ آرزوئیں سمٹی ہوئی ہیں جو برسوں سے مسلمانوں کے سینوں میں مچلتی رہی ہیں۔ یہ کتاب دلوں کی دھڑکنوں کو وہ زبان دیتی ہے جو اکثر لوگ کہنا تو چاہتے ہیں مگر الفاظ میں ڈھال نہیں پاتے۔ میں نے اس ناول کو پہلی بار اس وقت دیکھا جب ہمارے عزیز ساتھی مولانا سمعان خلیفہ ندوی نے اسے "ندوی فضلاء گروپ” میں شیئر کیا۔ چند صفحات پڑھے، لیکن اسکرین پر پوری پڑھنا ممکن کہاں؟لیکن چند صفحات کے مطالعہ نے جیسے کسی نے میری رگوں میں حرارت بھر دی ہو۔ پھر جب یہ کتاب مکمل شکل میں ترجمے کے ساتھ محترم ڈاکٹر طارق ایوبی صاحب کے توسط سے میرے ہاتھ آئی، تو پڑھنے لگا—اور یوں پڑھتا چلا گیا کہ لفظ لفظ میرے اندر اترتا گیا۔ یہ کتاب ایسی گرفت رکھتی ہے کہ قاری محسوس بھی نہیں کرتا اور یکایک خود کو آدھی رات میں غزہ کی گلیوں میں بھٹکتا پاتا ہے، دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، ملبے کے درمیان تڑپتے چہروں کی چلمنیں ہلتی ہیں، اور مجاہدین کی دھڑکنیں اپنے سینے سے ٹکراتی محسوس ہوتی ہیں۔ میں ہر صفحے پر رک رک کر سوچتا کہ اب اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟اسلامی جہاد کا اگلا وار؟مزاحمت کا نیا قدم؟کون شہید ہوگا؟ کون زخمی؟غزہ کب تک صبر کرے گا؟اور مجاہدین کی کامیابیوں کی روشنی کب پھیلے گی؟کبھی کسی شہید کی موت دل کو…
Read moreخلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق
خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق مصنف: ڈاکٹر حمدی شاہین مصری حفظہ اللهمترجم: حافظ قمر حسننظر ثانی و مراجعت : محمد فہد حارث Mohammad Fahad Harisصفحات: ۶۷۶ تبصرہ و تعارف : معاویہ محب الله در حقیقت یہ کتاب مصری نژاد مصنف د.حمدی شاہین کی ” الدولة الأموية المفترى عليها ” کا اردو ترجمہ ہے، ڈاکٹر صاحب تاریخ اور اسلامی تہذیب کے پروفیسر ہیں، یہ کتاب آج سے تقریباً چالیس سال قبل لکھی گئی تھی، اس ترجمہ کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود مصنف نے مترجِم کی کاوشوں کو سراہا ہے اور مباحث سمجھنے کے لئے مہینوں رابطے میں رہنے کا تذکرہ کیا ہے، کتاب کا آغاز محمد فہد حارث کے پیش لفظ سے ہوتا ہے جو اموی تاریخ کے حوالے سے عصر جدید کے مفکرین ؛ عبید الله سندھی، د. مصطفی سباعی اور پروفیسر عبد القیوم کی آراء اور تاریخی تنقیح کے متعلق اقتباسات سے مزین ہے۔ کتاب کے داخلی مباحث نہایت عمدہ اور تحقیقی ہے، پروفیسر یاسین مظہر صدیقی صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار فرمایا تھا کہ کاش خلافت بنو امیہ کی سیاسی، علمی، معاشرتی، معاشی اور عسکری حالات پر مثبت تاریخ لکھی جاتیں! مذکورہ کتاب سمجھ لیجئے کہ مظہر صدیقی صاحب کی امیدوں کا چراغ ہے، اموی خلافت کے ہر پہلو پر نہ صرف مفصّل کلام کیا ہے بلکہ اموی خلافت کے چہرہ کو داغدار کرنے والے اعتراضات کا بھرپور جائزہ بھی لیا ہے، منفی اثرات، غیر ضروری اعتراضات اور سیاسی عصبیت کی وجہ سے اموی خلافت کی جو تصویر ہمارے بھولے بھالے قارئین کی نظروں میں ہیں، اس کے بجائے یہ کتاب مثبت تاریخی تہذیب، تعمیری کمالات، دینی و علمی اثرات، معاشی و عسکری ترقیوں کا مطالعہ پیش کرتی ہے، کتاب کے مطالعہ کے بعد قارئین اپنے روشن ماضی پر فخر محسوس کریں گے، نوجوان مستشرقین کی قلابازیوں سے واقف ہوں گے اور اسلامی تاریخ میں پیوستہ شیعی اثرات کو محسوس کریں گے۔ مصنف نے مقدمہ سے آغاز کرنے کے بعد تقریباً ۱۷۰ صفحات تک اموی تاریخ کی تحریف کے دلائل کا جائزہ لیا…
Read more