دولت عثمانیہ اور ترکی کی تاریخ از مولانا عتیق احمد بستوی کتاب کا رسم اجرا
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنو کے زیر اہتمام تقریب رسم اجرا کا انعقاد
بیسویں صدی میں متعدد ایسے حادثات پیش آئے ہیں کہ جنھوں نے دلوں کو بے چین اور آنکھوں کو اشکبار کیا ہے لیکن ان میں سب سے اہم واقعہ خلافت عثمانی کے سقوط کا ہے، جو سن 1923ء عیسوی میں پیش آیا، خلافت عثمانیہ اخیر زمانے میں گو اثر و نفوذ کھو چکی تھی اور شوکت شکوہ سے محروم ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی اجتماعیت اور عالم اسلام کی وحدت کی ایک علامت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کی تاریخ اسلامی تاریخ کا ایک چمکتا اور دمکتا ہوا اہم حصہ ہے، اس سے واقف ہونا، اس کے دور عروج کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنا اور اس کے زوال کے اسباب کو جاننا اور سمجھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ خلافت کو کس طرح ختم کیا گیا؟ کیسی کیسی سازشیں کی گئیں؟ کہاں کہاں خیانت ہوئی؟ کب کب خرید و فروخت ہوئی؟ کیا کیا پلان بنائے؟ دولت عثمانیہ میں آباد مختلف مسلم قومیں اور ان کے بعض قائدین کس طرح ان سازشوں کا شکار ہوئے اور دوسروں کا آلۂ کار بنے؟ اس کی حیرت ناک اور حسرت ناک داستان بار بار سننے اور پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ غیروں کی عیاری اور اپنوں کی خیانت سے بچا جا سکے۔
کیونکہ تاریخ صرف ایک داستان نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ قوموں کے لیے آئینہ ہوتی ہے، جس کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اپنا چہرہ سنوار سکتی ہے اور اس کے داغ دھبوں کو صاف کر سکتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ کے اس اہم واقعے سے صرف ایک قصۂ پارینہ سمجھ کر نہ گزرا جائے بلکہ پوری حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا جائزہ لیا جائے اور تجزیہ کیا جائے کہ ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے؟اسی جائزہ و تجزیہ کے لیے اور یہ کہ ہم نے سقوط خلافت سے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے اور ان جیسے مذکورہ بالا سوالوں کے جوابات دینے کے لیے الغاء خلافت سے قبل و بعد متعدد مورخین و مصنفین اور مفکرین و باحثین نے ہزاروں صفحات سیاہ کر دیے، جس کے نتیجے میں زوال خلافت سے قبل سن 1893ء میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز محمد شناوی کی ضخیم کتاب “الدولة العثمانية دولة إسلامية مفترى عليها 3/ جلدوں میں مطبع محمد آفندی مصطفی، مصر سے شائع ہو کر منصۂ شہود پر آئی۔ سقوط خلافت کے بعد 1980ء میں محمد فرید بک کی وقیع تصنیف “تاريخ الدولة العلية العثمانية” مکتبہ انجلو، مصر سے چھپ کر منظر عام پر آئی اور الغاء خلافت کے چند ہی سالوں بعد ڈاکٹر محمد عزیر کی گراں قدر کتاب”دولت عثمانیہ” (دو جلدیں، جسے 1939ء میں دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ نے شائع کیا) نے اس موضوع پر اردو میں پہلی کتاب ہونے کا شرف حاصل کیا۔ (بقول علامہ سید سلیمان ندوی)
خلافت عثمانیہ سے متعلق مذکورہ بالا چند کتابیں بہت بنیادی اور اہم ہیں۔ مذکورہ کتب کے علاوہ دولت عثمانیہ کی تاریخ اور اس کے سلاطین وغیرہ پر دسیوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی معروف مصنف و محقق اور فقیہ مولانا عتیق احمد بستوی کی تازہ ترین علمی و تاریخی تصنیف لطیف “دولت عثمانیہ اور ترکی کی تاریخ” ہے، جو 3/ جلدوں اور 1748 صفحات پر مشتمل ہے، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ نے جسے شائع کیا ہے۔ اس کی اشاعت پر مجلس نے 13/ مئی 2024ء کو ایشیا کی عظیم درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے وسیع سبزہ زار اور گل و گلزار میں مغرب بعد تقریب رسم اجرا کا انعقاد کیا، جسے ملک کے مختلف گوشوں سے تشریف لائے اقلیم قلم و قرطاس کے بے تاج بادشاہوں اور اصحاب علم و فن نے رونق بخشی۔
مغرب بعد کا وقت ہے، ندوہ کی پرشکوہ مسجد کے دائیں جانب کا خوبصورت لان ہے، جہاں سبزہ زار ہے اور شادابی کی وجہ سے منظر دلنواز بھی، اور جہاں طلبہ و علماء کے علاوہ علم و ادب کے گوہر آبدار اور زبان و قلم کے شہسوار مجتمع ہیں، لان کا منظر دیدنی ہے۔ ایسے دلفریب مناظر میں اس علمی اور روحانی تقریب کا آغاز جناب مولانا قاری محمد ریاض مظاہری ندوی (صدر شعبہ تجوید و قرأت: دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ) کی روح پرور تلاوت سے ہوا، پھر ناظم جلسہ جناب مولانا سلمان نسیم ندوی (استاذ: دار العلوم ندوۃ العلماء) نے بڑے ہی موثر پیرایۂ بیان اور دلنشین اسلوب میں کتاب کا جامع تعارف کرایا، وہ کہتے ہیں: “کتاب کی کہانی مصنف کی زبانی ان شاء اللہ ہم کتاب میں پڑھیں گے۔ یہاں پر بس اتنا عرض کرنا ہے کہ یہ کتاب صرف واقعات کی کھتونی نہیں ہے؛ بلکہ ایک فرض کی تکمیل ہے، ایک قرض کی ادائیگی ہے، الزامات کا جائزہ ہے، ژولیدہ حوادث اور اس کے اسباب کا تجزیہ ہے، دشمن عیار کی نقاب کشائی ہے تو دوست کی غفلت کا محاسبہ ہے، تاریخ عثمانی سے متعلق نایاب دستاویز کا مجموعہ ہے، عثمانی سلطنت کی دوست و دشمن، خفیہ وعیاں تحریکات پر مبصرانہ تبصرہ ہے۔ یہ کتاب عثمانی تاریخ کا ماضی بھی ہے، حال بھی اور اس کا مستقبل بھی۔ یہ کتاب دراصل اسی طرز تاریخ نویسی اور تاریخ نگاری کا امتداد ہے، جس کے معلم اول علامہ شبلیؒ ہے اور جس کے حسن کو دبستان شبلی نے دوبالا کیا تھا اور جس کی روح کو مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے گرمایا تھا۔”
ناظم جلسہ نے اپنے دلکش تمہیدی و تعارفی کلمات کے بعد ندوۃ العلماء کے ناظر عام، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کے سکریٹری اور اپنے والد گرامی کی فکر اور اسلوب نگارش کے امین جناب مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی کو خصوصی خطاب کے لیے دعوت دی، مولانا نے اپنے خصوصی خطاب میں سب سے پہلے مجلس تحقیقات کے قیام کے پس منظر پر روشنی ڈالی، پھر آخر میں کتاب کی اہمیت کے متعلق کہا: “اس وقت ہمارے نوجوانوں میں مایوسی اور پست ہمتی عام ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ سے غلام رہے ہیں، تاریخ میں ہمارا کوئی رول نہیں ہے، یہ کتاب اس مایوسی کو دور کر سکتی ہے اور ان میں عزم و حوصلہ پیدا کر سکتی ہے۔” اسٹیج پر تشریف فرما اصحاب علم و قلم میں ایک اہم شخصیت دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کے علمی و دینی ماہنامہ “معارف” کے ایڈیٹر جناب مولانا عمیر الصدیق ندوی دریابادی کی تھی، اس تقریب میں آپ نے بھی اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا، جس میں کہا کہ: “تحریک ندوۃ العلماء کا ایک اہم مقصد کھوئے ہوئے کی جستجو ہے، اس حوالے سے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ ہمارے نوجوان اور مدارس کے طلبہ اگر کچھ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں تو یہ کتاب ان کے لیے بہترین سوغات ہے۔” مزید کہا کہ: “دارالمصنفین ندوہ کا ہی ایک حصہ ہے، یہاں اصحاب علم و فن تیار ہوتے ہیں اور وہاں اصحاب قلم و قرطاس۔” مولانا نے طلبہ کو تاریخ و ادب کے موضوعات پر خوب مطالعہ کرنے کی بھی تاکید کی۔
ان سے قبل “تحریر بے عدیل” نامی کتاب کے مرتب اور قاضی عدیل عباسی کے عزیز ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی (جنرل سکریٹری: دینی تعلیمی کونسل) ڈائس پر آکر اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرگئے: “مولانا عتیق احمد بستوی کی یہ کتاب کئی نسبتوں کی حامل ہے، ہم اس اہم کتاب کی تصنیف پر بستوی صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں (طلبہ) سے گزارش کرتے ہیں کہ اقبال کو ضرور پڑھیں، ان کے کلام میں بہت کچھ ہے، ان کو پڑھے بغیر آپ کے اندر بہت کمی رہے گی۔”
ڈاکٹر صاحب فراقؔ کے درج ذیل شعر کے ذریعہ کچھ کہہ کر اور بہت کچھ چھوڑ کر رخصت ہوگئے:
ایک تھا مجنوں، عاشق لیلی، ویرانے میں موت ہوئی
اور اگر تفصیل سے پوچھو، یہ قصہ طولانی ہے
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بہترین تصنیف پڑھ کر قاری مصنف کا گرویدہ اور عاشق ہو جاتا ہے لیکن مصنف سے اگر قاری کی بالمشافہ ملاقات ہو جائے تو گویا معراج ہو جاتی ہے، کچھ ایسا ہی خوبصورت منظر آج کی دلچسپ تقریب میں تھا کہ مصنف کتاب یعنی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مؤقر استاذ حدیث و فقہ، مجلس تحقیقات شریعہ، ندوۃ العلماء اور اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا کے سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اساسی و رکن عاملہ مولانا عتیق احمد بستوی (پ 1954ء) بذات خود تقریب میں جلوہ افروز تھے۔ آپ کا شمار عصر حاضر کے ممتاز علماء اور اصحاب افتا میں ہوتا ہے۔ تحقیق و تصنیف کا نہایت اعلی ذوق آپ کو نصیب ہوا ہے۔ شرعی و فقہی موضوعات بطور خاص جدید مسائل پر آپ کی تحریریں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ایک درجن سے زائد کتابوں کے آپ مصنف ہیں۔ ازالۃ الشکوک اور الحیلۃ الناجزہ پر آپ کی تحقیق و تسہیل نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں نفاذ شریعت، علامہ محمد انور شاہ کشمیری، علوم افکار اور فکر کی غلطی آپ کی ممتاز تصانیف میں شمار کی جاتی ہیں۔ جب اتنا مایہ ناز مصنف و محقق اپنی کتاب پر اظہار خیال کرنے کے لیے بذات خود موجود تھا تو گویا سامعین سراپا اشتیاق بنے بیٹھے زبان حال سے افضل الہ آبادیؔ کا یہ شعر پڑھ رہے تھے:
ابھی تو ان کا کوئی تذکرہ ہوا بھی نہیں
ابھی سے بزم میں خوشبو کا رقص جاری ہے
تبھی ناظم جلسہ کتاب کی کہانی مصنف کی زبانی سننے کی درخواست کرتے ہیں اور سامعین ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ مصنف حمد و صلاۃ کے بعد گویا ہوتے ہیں: “مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ نے 1980ء میں یہ موضوع ہمیں دیا تھا، لیکن مجھے افسوس ہے کہ حضرت کی حیات مبارکہ میں یہ کام سامنے نہ سکا یہاں تک کہ وہ رحلت فرما گئے۔ اسی طرح حضرت مولانا منظور نعمانیؒ جنہوں نے میری تحریروں کی بڑی قدر افزائی کی، اسے بہت پسند فرمایا اور میری ہمت افزائی کے لیے تحسین و ستائش کے دو خطوط بھی سال فرمائے، وہ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کے بعد حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسن ندویؒ اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنین ندویؒ جنھوں نے میرے اس کام میں خوب دلچسپی لی، میری بہت رہنمائی فرمائی اور جنھیں میرے اس کام کی تکمیل کی بڑی فکر تھی، وہ دونوں بزرگ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے لیکن ان کی زندگی تابندگی میں اس کتاب کی تکمیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، اگر ان کی حیات مبارکہ میں یہ کام سامنے آتا تو یقینا وہ بڑے خوش ہوتے، دعائیں دیتے اور یہ کتاب ان کے بابرکت مقدمات و تقریظات سے مزین ہوتی، لیکن یہ سعادت مقدر نہ تھی، اس پر حسرت موہانیؔ کے اس شعر کے ذریعہ اپنی حسرت کا اظہار کرتا ہوں:
غم آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتاؤں
میرے ہمتوں کی پستی میرے شوق کی بلندی
پھر مصنف نے کتاب کی تینوں جلدوں کے مباحث کا عطر کشید کر کے سامعین کے سامنے رکھ دیا، جس کا ماحصل یہ ہے کہ اس کتاب میں دولت عثمانی کا عروج و زوال، سلطان عبدالحمید ثانی کے دور خلافت اور ان کے کارناموں کی تفصیل، خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے کا سانحہ، انجمن اتحاد و ترقی اور مصطفی کمال پاشاہ کے دور حکومت کے اہم واقعات، ترکی میں اسلامی بیداری کے حوصلہ افزا اقدامات و حالات، سلطان عبدالحمید ثانی کی دو ڈائریاں، نیز موجودہ صدر رجب طیب اردوغان کے مومنانہ اقدامات کا ذکر موجود ہے۔ مصنف نے یہ بھی کہا کہ: “یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک دستاویزی حیثیت رکھتی ہے، جس سے اہل علم اور ریسرچ اسکالرز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ موجودہ ملکی و بین الاقوامی حالات، ترکی و خلافت عثمانیہ کی تاریخ اور مسئلہ فلسطین وغیرہ کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب بڑی معاون ثابت ہوگی۔” آخر میں مصنف نے اس پہلو کا بھی ذکر کیا کہ اس کتاب کے متعدد موضوعات و عناوین تشنہ ہیں، جن پر مستقل کتابیں آسکتی ہیں۔
ندوۃ العلماء کو اپنے جن فضلا پر ناز ہے، ان میں ایک نام مشہور محقق جناب مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی (استاذ علوم حدیث: دارالعلوم ندوۃ العلماء) کا بھی ہے، اس تاریخ ساز تقریب میں مولانا بھی تشریف فرما تھے، جب ناظم جلسہ نے ان کو اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کے لیے آواز دی، تو گویا وہ بزبان حال لالا مادھورام جوہرؔ کا یہ شعر پڑھتے ہوئے اسٹیج کی جانب بڑھے:
نالۂ بلبل شیدا تو سنا ہنس ہنس کر
اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی
ڈائس پر آکر مولانا اپنے مخصوص لب و لہجے میں گویا ہوئے: “مولانا علی میاں ندویؒ اور مولانا منت اللہ رحمانیؒ یہ دونوں حضرات افراد ساز تھے، ان دونوں نے بلا تفریق مسلک و مشرب بہتوں کی تعلیم و تربیت کی، اس لیے ان کے ارد گرد ہمیشہ ارباب علم دانش کی ایک انجمن ہوتی، جن سے انھوں نے بے شمار متعدد علمی منصوبوں پر کام کرایا، انھیں میں سے ایک مولانا عتیق صاحب ہیں، کہ ان پر مولانا علی میاں ندویؒ کی نظر جوہر شناس پڑی اور انھوں نے اپنی فراست سے سمجھ لیا کہ یہ اقلیم قلم و قرطاس کی بساط پر ایک نو وارد ہے لیکن جواں عزم و جواں سال ہے، یہ ہمارے علمی و تحقیقی خاکوں میں رنگ بھر سکتے ہیں، تو ان کو ندوہ بلایا اور تاریخ کا یہ عظیم منصوبہ ان کے حوالے کیا۔” مولانا موصوف نے کتاب کے محاسن کے ساتھ مزید ایک حوالے کے اضافے کا ذکر کیا۔ مصنف کو مبارکباد دیتے ہوئے کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بالخصوص اس کتاب میں زوال خلافت کا باعث بننے والی تحریکات: ماسونیت، صہیونیت، عرب قومیت، ترک قومیت اور یہود دونمہ جیسے مباحث کو الگ سے کتابی شکل دینے اور انھیں شامل نصاب کرنے کی اپیل کی۔ اخیر میں مولانا نے بڑی دلچسپ بات بتائی، وہ یہ کہ : “مجھ میں اور مولانا عتیق صاحب میں کچھ یکسانیت ہے، میری اور مولانا دونوں کی سن ولادت 1954ء ہے۔ میری فراغت 1974 میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے ہوئی اور ان کی فراغت اسی سال دارالعلوم دیوبند سے ہوئی، وہ 1980 میں ندوہ آئے اور میں ان سے ایک سال قبل 1979 میں ندوہ آگیا تھا۔”
عشاء کا وقت ہو چکا تھا۔ اذان میں تین منٹ باقی تھے۔ موذن صاحب تیار ہو رہے تھے، لگا کہ اب بس اذان ہو جائے گی کہ ناظم جلسہ نے اعلان کیا: اذان 15 منٹ بعد ہوگی۔ پھر تقریب کے صدر نشیں مرشد الامتؒ کے جانشیں حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی (ناظم: ندوۃ العلماء) سے صدارتی خطاب مستطاب کے لیے مودبانہ درخواست کی گئی۔ خطبہ شروع ہوا اور سبھی لوگ گوش بر آواز ہو گئے۔ صدر گرامی قدر نے مصنف کتاب سے متعلق اظہار خیال فرماتے ہوئے کہا: “استاذ گرامی مولانا عتیق احمد بستوی کا تاریخی ذوق ان کے فقہی ذوق سے کم نہیں ہے، مولانا کو ندوہ کا علمی ذوق ملا ہے، ندوہ کے علمی مزاج اور اسلوب کو سامنے رکھ کر انہوں نے یہ اہم دستاویزی کتاب تیار کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔” کتاب کے متعلق صدر ذی وقار نے فرمایا: “موجودہ حالات میں یہ کتاب نسخۂ کیمیا ہے، اس سے عروج و زوال کی نشاندہی ہوتی ہے، اس کتاب سے ہم دعوت کے میدان میں سبق لے سکتے ہیں، اس سے ہمارے لیے ترقی کے راستے وا ہو سکتے ہیں اور ہماری تاریکیاں دور ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے بعض مرتبہ آدمی قدم نہیں بڑھا سکتا۔” طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے صدر عالی مرتبت نے فرمایا کہ: ‘” ندوۃ العلماء کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو تاریخ سے واقف ہوں، زمانۂ ماضی سے واقف ہوں اور حال کو ماضی سے جوڑ کر مستقبل کے لیے ایک لائحہ عمل طے کریں اور یہاں کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ ایسے مصنفین، مفکرین اور دعاۃ پیدا کیے جائیں جو ہر طبقے کے سامنے صحیح انداز میں اسلام کی ترجمانی کر سکیں، اس لیے ندوۃ العلماء کے فضلاء پر سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تاریخ کا خوب گہرا مطالعہ کریں، اس سے سبق لیں اور اس مردہ انسانیت کی مسیحائی کریں۔”
اس تقریب کو شروع ہوئے قریب دو گھنٹے ہو رہے تھے لیکن کسی کے چہرے پر کوئی شکن نہیں، بدن میں کوئی تھکاوٹ نہیں، لوگوں میں مزید بیٹھنے اور سننے کی تب و تاب تھی، اتنے میں ناظم جلسہ نے صدر عالی وقار کی دعا پر تقریب کے اختتام کا اعلان کردیا۔ نماز مغرب کے کچھ دیر بعد شروع ہونے والی اس کامیاب اور حوصلہ افزا تقریب کا اختتام عشاء کی اذان کے بعد صدر محفل کی مختصر دعا پر ہوا۔ تقریب کے اختتام پر سامعین باتمکین کو گویا وقت کا تنگ دامانی کا احساس ہو رہا تھا اور اظہار خیال کرنے والے حضرات زبان حال سے اقبال کا یہ شعر پڑھتے ہوئے مجلس سے اٹھ رہے تھے:
فروزاں ہیں سینے میں شمع نفس
مگر تاب گفتار کہتی ہے بس