حرا آن لائن
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کامیابی کا ایجنڈا مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی کی تحریروں کی روشنی میں،از : اسجد حسن بن محمد حسن ندوی

ہندوستانی مسلمانوں کی حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے احوال سے مشابہت رکھتی ہے مکی زندگی میں مسلمان اقلیت میں تھے ہندوستانی مسلمان بھی اقلیت میں ہے،مکی زندگی کے مسلمانوں کو مشرکین کی مخالفت کا سامنا تھا ہندوستانی مسلمانوں کو بھی مشرکین کا سامنا ہے ،مکی زندگی میں مسلمان اسباب و وسائل کے لحاظ سے کمزور تھے ہندوستانی مسلمان بھی آج کمزور ہیں، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ مخالفت مکی دور کے مقابلے میں بہت معمولی ہے ، چوں کہ مجموعی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے حالات مکی دور کے مماثل ہیں اس لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ مکی کے دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایجنڈا کیا تھا مخالفت ظلم اور اقلیت کی صورتحال میں آپ نے جس ایجنڈے پر عمل کیا تھا مسلمانوں کو بھی وہی ایجنڈا کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے سیرت رسول کے مکی دور کا جائزہ لے تو پتہ چلے گا ان کی زندگی میں آپ نے درج ذیل یہ نکاتی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنایا تھا تھا، (1) وحدت (2) دعوت (3) خدمت اس کے بعد جب حضرت مفکر اسلام کی تحریر اور زندگی پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ حضرت مولانا کا بھی یہی تینوں ایجنڈا تھا ،حضرت نے ان تمام تحریکوں کا ساتھ دیا جو ان ایجنڈے کو لیکر آگے بڑھا، *وحدت* اتحاد امت مسلمہ کی اصلاح کی اولین اساس ہے، مکی زندگی میں مسلمان کمزور اور اسباب و وسائل سے محروم ضرور تھے لیکن ان میں آپسی اتحاد اور اجتماعیت ایسی تھی کہ ظالموں کے ہزار ظلم کے باوجود ان کا شیرازہ منتشر نہ ہوا ، مکی زندگی کے تعلق سے کبھی نا سنا گیا ہوگا کہ صحابہ میں اسلام اور دین کے تعلق سے بے اعتمادی یا نظریات میں انتشار پیدا ہوا ہو ، جبکہ اختلاف و انتشار موجودہ دور میں ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت بن گیا ہے یہ اختلاف عقائد کی بنیاد پر بھی ہیں اور رسم و رواج کی بنیاد پر بھی مختلف فقہی مسالک سے ان کی وابستگی…

Read more

فتاوی معاصرہ : ایک تعارف از: اسجد حسن ندوی

*ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے فتاویٰ* *از : اسجد حسن بن محمد حسن ندوی* علوم اسلامیہ میں فقہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ، اور یہ علوم اسلامیہ میں سب سے زیادہ وسیع اور دقیق علم ہے، یہ جہاں ایک طرف قرآن، حدیث، اقوال صحابہ، اجتہادات فقہاء ، جزئیات و فروع، راجح و مرجوح اور امت کی واقعی ضروریات کے ادراک کے ساتھ زمانے کے بدلتے حالات کے تناظر میں دین کی روح کو ملحوظ رکھ کر تطبیق دینے کا نام ہے، وہیں دوسری طرف طہارت و نظافت کے مسائل سے لے کر عبادات، معاملات، معاشرت، آداب و اخلاق اور ان تمام چیزوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جن کا تعلق حلت و حرمت اور اباحت سے ہے، اور فتاویٰ کا میدان فقہ سے وسیع تر ہے، اس لیے کہ فتاویٰ میں ایمانیات، فرق و ملل، تاریخ و سیرت، تصوف و سلوک، اخلاق و آداب، عبادات و معاملات، معاشرت و سیاسیات کے ساتھ قدیم و جدید مسائل کا حل، اصولی و فروعی مسائل کی تشریح و تطبیق جیسے امور بھی شامل ہوتے ہیں، جہاں ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے زوال اور سامراجی طاقت کے تسلط کے بعد فقہ و فتاویٰ کا کام دینی مدارس اور ان سے متعلق علماء کرام انجام دیتے رہے وہیں عالم اسلام اور عرب کے علماء نے بھی فتاویٰ مرتب فرمائیں ، ان میں شیخ شلتوت ، شیخ جاد الحق شیخ الازہر، سلفی مکتبہ فکر کے ترجمان عبد اللہ بن زیاد اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے فتاوی کو خاص اہمیت حاصل ہے ، اور ڈاکٹر صاحب کے فتاوے کا مجموعہ “فتاویٰ معاصرہ” کے نام سے پانچ جلدوں پر مشتمل منظر عام پر آچکی ہے، ▪️ قرضاوی صاحب کی شخصیت پر ایک نظر داکٹر یوسف قرضاوی کی شخصیت کسی بھی طرح کی محتاج تعارف نہیں ہے ، وہ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے ، علم کے پہاڑ تھے ، وہ صرف ایک مدرس و معلم نہ تھے بلکہ ، فقہ و فتاویٰ کے ماہر ، عظیم داعی ، معروف مصنف و محقق ، نامور قائد و رہنما ، مربی ، مجاہد…

Read more

رمضان کی تیاری کیسے کریں

رمضان المبارک کی تیاری کیسے کریں ؟ از: قاضی محمد حسن ندوی ماہ مبارک رمضان المبارک کی آمد آمد ہے،اس کی آمد بلاشبہ اللہ ربّ العزت کی کرم فرمائ کا نتیجہ ہے،جو مسلمان اس مہینے کی آمد تک حیات سے رہے گا وہ یقیناً بڑا ہی خوش نصیب ہوگا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم رجب المرجب کا چاند نظر آنے پر یہ دعا کثرت سے پڑھتے ( اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا الی رمضان) مسلمان کے لیے اس مہینے کی بازیابی اللہ تعالٰی کی نوازش اور عنایت کا حصہ ہے ،اس پر ہر مسلمان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ،اس لیے کہ گزشتہ رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ بہت سے احباب نے روزہ تراویح ادا کی ،ماہ مبارک کی رحمت وبرکت سے مستفید ہوئے ، لیکن آج وہ ہمارے درمیان میں نہیں رہے ،بلکہ اللّٰہ کی رحمت میں جاچکے ہیں ،اس پہلو سے ہمارے اوپر ماہ مبارک کا سایہ فگن ہونا نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ،اس لیے ضرورت ہے کہ ہم اس کے تقاضے کو پورا کرنے کی فکر کریں اور شکر الٰہی کو بجا لانے کی بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے (،لئن شکرتم لازیدنکم ولان کفرتم ان عذابی لشیدید)اگر تم اللہ کا شکر ادا کروگے تو تمہاری نعمتوں میں اصافہ کروں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو اللہ کا عذاب بہت سخت ہے) یہ فطری چیز ہے کہ وقت سے پہلے جس کام کی تیاری ہوتی ہے وہ کام ہر پہلو سے مکمل اور پورا ہوتا ہے ،مثلا کسی کے گھر لڑکے یا لڑکی کی شادی کی تقریب طے ہو تی ہے تو گھر کے سارے افراد اس پہلو سے غور کرتے ہیں کہ اس موقع پر آنے والے سارے مہمان کا اس کے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے اکرام ہو ،ضیافت ہو ،استقبال ہو،کسی کی ناقدری نہ ہو ،چنانچہ اس کی تیاری بر وقت نہیں کی جا تی بلکہ اس کے لیے بہت پہلے سے لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے ،پھر اس کے مطابق تیاری کی جا تی ہے ،اس…

Read more

زندگی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

*ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں* *تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے* اس دنیائے فانی کی کسی چیز کو دوام و قرار نہیں، ہر چیز فنا کے گھاٹ اترنے والی ہے، جب سے یہ دنیا بنی ہے نہ جانے کتنے آئے اور گئے، کتنی چیزیں وجود میں آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے فنا ہو گئیں، آمد و رفت کا یہ سلسلہ ابتدائے آفرینش سے قائم ہے اور تاقیامت قائم رہیگا، اس جہان فانی کی خوشی کیا اور غم کیا، جس طرح فرحت و انبساط کے لمحے محدود ہوتے ہیں اسی طرح غم و اندوہ کی گھڑیاں بھی گذر ہی جاتی ہیں، جب اس دنیا کی ہر چیز وقتی اور فانی ٹھہری تو اسے دل سے کیا لگانا، ذرا سوچئے نا، جب سے ہم نے شعور سنبھالا ہے ہمیں بیشمار لوگوں سے ملنے اور ان سے مستفید ہونے کے گران قدر مواقع ملے ہیں، ہم نے کتنوں سے دل لگایا، محبت و عقیدت کے پھول کھلائے، اور انہیں سینچ سینچ کر پروان چڑھاتے رہے، لیکن انجام کیا ہوا؟ یہی نا کہ ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ ہم سے جدا ہو گئے، اور جو بچے ہیں وہ بھی داغ مفارقت دینے کو تیار بیٹھے ہیں، *کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں* **بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں* کل شام چھے بجے جب تلاوت قرآن پاک سے فارغ ہوکر موبائل کھولا تو واٹسپ یونیورسٹی پر یہ خبر گردش کرتی نظر آئیں، کہ نائب ناظم حضرت مولانا حمزہ حسنی صاحب اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کرگئے، إنا لله وإنا إليه راجعون مولانا خانوادہ حسنی کے عظیم فرد تھے، مشہور و معروف قلم کار حضرت مولانا محمد ثانی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند و ارجمند تھے ، “ولادت” حضرت مولانا کا اسی خانوادہ علم و عمل میں 1950ء مطابق١٣٧٠ ھ میں ولادت ہوئی، “ابتدائی تعلیم” حضرت مولانا نے ابتدائی تعلیم معہد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حاصل کی جب کے عالمیت و فضیلت کی سند دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے…

Read more