HIRA ONLINE / حرا آن لائن
کامیاب ازدواجی زندگی کے تقاضے

کامیاب ازدواجی زندگی کے تقاضے مولانا مفتی محمد اعظم ندوی زوجین خصوصاََ نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے سب سے مستند رہنمائی وہ ہے جس کے سوتے قرآن وحدیث کی روشن کرنوں سے نکلتے ہیں، اور جب اسی نور سے انسانی تجربات، ادب واخلاق کی لطافت اور زندگی کی حکمتوں کو منور کرلیا جائے تو ازدواجی رشتہ ایک مقدس معاہدے سے بڑھ کر محبت، سکون اور رحم دلی کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس بندھن کا بنیادی فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: "لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا”—تاکہ تم اپنی بیویوں سے سکون پاؤ—اور یہ سکون محض ساتھ رہنے سے نہیں بلکہ باہمی اعتماد، گفتگو کی شفافیت، اخلاقی نرمی اور ایک دوسرے کے وجود کو قبول کرنے سے پیدا ہوتا ہے، نئے جوڑوں کو چاہیے کہ ازدواجی زندگی کی صبح امید افزا گفتگو سے شروع کریں اور محبت کے لہجے کو اپنی عادت بنا لیں، کیونکہ غیرضروری خاموشیاں اکثر غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہیں، جبکہ کھلی، شریفانہ اور نرمی سے بھری بات چیت دلوں کے کسی بھی بوجھ کو مٹا دیتی ہے، لیکن:بات ہر بات کو نہیں کہتےبات مشکل سے بات ہوتی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ” (تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہترین ہو) اس لیے شوہر اور بیوی دونوں کے لیے لازم ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے اپنے بہترین اخلاق پیش کریں، کیونکہ اصل عظمت وہ نہیں جو دنیا دیکھے، بلکہ وہ ہے جو گھر کی چہار دیواری میں نمایاں ہو، قرآن نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا “لباس” کہا، اور لباس قرب، حفاظت، زینت، پردہ، حرارت اور سکون کا مجموعہ ہوتا ہے؛ یہی صفات اس رشتے کی روح ہیں، کبھی ایک کپ چائے، تھکے ہوئے چہرے پر نرمی سے رکھا ہوا ہاتھ، گھر کے کاموں میں تھوڑا سا تعاون، یا صرف دو جملوں کی محبت، یہ سب ریشمی لباس کی طرح رشتے کو نرم ولطیف بناتے ہیں۔ اختلافات زندگی کا حصہ ہیں، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا” (اگر میاں بیوی اصلاح چاہیں تو اللہ…

Read more

ساس جو کبھی بہو تھی

ساس ، جو کبھی بہو تھی- از : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی [ ازدواجی زندگی کے 35 برس پورے ہونے پر اہلیہ کے بارے میں کچھ باتیں ، جو بہوؤں کے لیے مفید ہوں گی اور ساسوں کے لیے بھی – ] میں اپنا اور اپنے گھر والوں : بیوی ، بہو اور پوتوں کا کچھ ذکر کرتا ہوں تو میرے بعض احباب اسے خود ستائی اور ریاکاری پر محمول کرتے ہیں ، حالاں کہ اللہ گواہ ہے ، میرا ارادہ صرف اصلاح اور تربیت ہوتا ہے – میں چاہتا ہوں کہ جو اچھی باتیں ہوں وہ میری بہنیں اور بیٹیاں اختیار کریں ، تاکہ ان کی زندگی میں بھی حسن پیدا .ہو اور خوش گواری آئے – میرے ساتھ اہلیہ کے علاوہ بہو اور دو پوتے (ابراہیم اور اسماعیل) رہتے ہیں – [ میرا بیٹا ملازمت کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم ہے – ] اہلیہ جب بہو تھیں تو ان کے تعلقات اپنی ساس سے بہت خوش گوار تھے اور اب ساس ہیں تو اپنی بہو سے ان کے تعلقات مثالی ہیں – میں بچپن سے وطن سے دوٗر رہا – شادی کے بعد بھی – والد صاحب نے پابند کر رکھا تھا کہ چاہے جہاں رہو ، عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مواقع پر گھر ضرور آنا – میں نے ہمیشہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کی – اہلیہ میرے ساتھ جاتیں تو وہ میری امّی کے لیے خاص طور پر کپڑے ، چوڑیاں اور دوسری چیزیں لے کر جاتیں – جتنے دن گھر پر رہتیں ان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھتیں – ان کے کپڑے دھو دیتیں – سر میں کنگھی کرتیں اور تیل لگاتیں – میری امّی کی زبان میں کینسر تشخیص ہوا – چھوٹا بھائی آپریشن کروانے کے لیے انھیں ممبئی لے گیا – بعد میں ابو کو بھی وہاں لے جانے کا پروگرام بنا تو اہلیہ نے بھی ساتھ جانے کی ضد کی اور جاکر رہیں – امی کے بڑھاپے میں اہلیہ نے خاص طور پر ان کو ہر ممکن آرام پہنچانے کی کوشش…

Read more

یادوں کی قندیل (اہلیہ حضرت مولانا مختار علی صاحب مظاہری مہتمم مدرسہ معھد البنات یعقوبیہ یکہتہ )

بلاشبہ اس عالم کون و فساد میں موت و حیات کی سنت مستمرہ ایسی جاری ہے کہ بجز صبر و انقیاد اور تسلیم و رضا کے کوئی چارہ کار نہیں ، جس طرح یہ ایک حقیقت ہے اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض حوادث اتنے صبر آزما ہوتے ہیں کہ بڑا حوصلہ مند انسان بھی حوصلہ ہار جاتا ہے ۔ اکتوبر کے دوسرے عشرے میں عارف باللہ حضرت مولانا ممتاز علی صاحب مظاہری رحمۃ اللہ علیہ بانی مدرسہ معھد البنات یعقوبیہ یکہتہ کی بڑی بہو ، مولانا مختار علی صاحب مظاہری کی اہلیہ ، اور مولانا علی اختر صاحب ندوی کی والدہ مرحومہ اچانک بستر علالت میں گئیں ، بیماری نے قدرے طول کھینچا ماہر ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق بڑے ہسپتالوں میں رکھ کر ہر ممکنہ تدابیر اختیار کی گییں، مگر قدرت ان کی زندگی کے منشور پر خاتمہ کی مہر لگاچکی تھی ، اور حکم الٰہی آچکا تھا جس کے سامنے ہرکوئی مجبور ہے ، لہذا وہ ٢٧ نومبر ٢٠٢٤ کو اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرگئ ۔ ( "انا للہ وانا الیہ راجعون”) کسی مبالغہ کے بغیر پوری دیانت اور کمال ذمہ داری کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس پر آشوب دور اور قحط الرجال کے زمانے میں ایسی باخدا خاتون ، رضاء بالقضاء کی تصویر ،نالہ و فریاد کا مرغ سحری اب کہاں ؟ یقین جانیں! مرحومہ کا مرثیہ در حقیقت صبر و شکر کا نوحہ و فریاد ہے ان کی وفات کا صدمہ عبادت و تقویٰ کا رونا ہے ، ان کا ماتم ، حیاء و شرافت کا ماتم ہے ، حق تعالی نے مرحومہ کو وہ فطری کمالات عطاء فرمائے تھے جو اس دور میں بہت کم ہی نظر آتے ہیں ۔ میں نے اپنے دائرہ علم میں ایسا پیکر صبر اور سر سے پیر تک شکر کا مجسمہ کہیں نہیں دیکھا اور نہ سنا۔ حق تعالی نے مرحومہ کو بے شمار کمالات ، مجاہدات و ریاضت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کا عجیب و غریب ذوق عطاء فرمایا تھا جس کا اندازہ آپ اس…

Read more