HIRA ONLINE / حرا آن لائن
سہ روزہ سمینار میں بعنوان: ‘بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا حصہ(١)

سہ روزہ سمینار میں بعنوان: ‘بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا حصہ(١) از: محمد صابر حسین ندوی سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہماراہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا شاعر مشرق علامہ اقبال رحمہ اللہ نے جب یہ ترانہ ہندی کہا ہوگا تو ان کے خواب و خیال میں بھی نہ رہا ہوگا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب اس گلستاں کیلئے کی گئی کاوشیں، باغبانی، شب و روز کی کد و جد پر سوال کے دائرے میں آجائے گا اور کوئی ہمارا حق تسلیم کرنے کو تیار نہ ہو گا، ہمیں ہماری جاں فشانی، محبت و رواداری اور عزیمت کی داستانیں سنانی پڑیں گی، لوگوں کو جھنجھوڑنا پڑے گا، ان کے کانوں اور دلوں پر دستک دینے کی مہم چلانے پڑے گی کہ وہ جان جائیں کہ کس باغبان کی بات ہورہی ہے، سوچنے کی بات ہے کہ ہم اس حقیقت کو دہرانے کی بات کر رہے ہیں جو سورج سے زیادہ روشن اور کوہسار و آبشار سے زیادہ صاف و شفاف ہے، اسلام اور مسلمانوں کی آمد سے قبل؛ جس ملک میں چھوت چھات، ذات پات کی جڑیں مذہب کے ساتھ جڑی ہوں، جہاں معاشرہ بندی اس طرح کی گئی ہو کہ کسی ایک طبقہ کو سر اٹھانے کی ہمت نہ ہو اور ایک گروہ خود کو خدا بلکہ اس سے بڑھ کر قوت و حیثیت اور پیدائشی حق کا مالک گردانا جاتا ہو، انسان کو انسان نہ قبول کیا جاتا ہے، شودر کو ایک جانور کے بدلے قتل کرنا اور اسے ثواب سمجھنا مذہب کا حصہ ہو، خواتین ستی کردی جاتی ہوں، مردوں کو عورتوں پر ایسے فوقیت ہو کہ گویا وہ سامان اور شئی بے جان ہوں؛ ان کے درمیان جنگ وجدال مذہبی اعتبار سے چلی آرہی ہو، ان کے دیوی دیوتا آپس میں دست گریباں ہوں اور ان کو ماننے والے گرنتھ، شلوک اور کھنڈ کے نام پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں، ایسے میں سماج کو اسلام نے اپنے عقیدہ، سلوک و تعلیمات اور انسان دوستی و انسانیت نوازی سے گلستاں بنا دیا ہو،…

Read more

ہندوستانی مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہو ؟

ہندوستانی مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہو ؟ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حقمیں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725 وحدت و اجتماعیت میں ہی ہمارے مسائل کا صحیح حل ہے، ہندوستان میں ہم مسلمان اقلیت میں ہیں، یہاں ہم کو کس طرح ملی اجتماعی اور سیاسی زندگی گزارنی ہے، اس مضمون میں اکابر کی تحریروں کی روشنی میں مناسب حل اور تجزیہ پیش کیا گیا ہے، قارئیکان سے درخواست ہے کہ اس پر مناسب تبصرہ و تجزیہ بھی پیش فرمائیں ، ضروری نہیں ہے کہ مضمون نگار کے سارے آراء سے اتفاق ہی کیا جائے ۔ م ق ن غیر مسلم ممالک میں آباد مسلم اقلیتوں کی اجتماعی، ملی ،سیاسی اور تنظیمی زندگی کس طرح اور کیسی ہو؟ اس پر گفتگو کرنا، اور اس پہلو سے عوام الناس کی رہنمائی کرنا موجودہ حالات میں بہت زیادہ ضروری ہے ۔ غیر مسلم ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب اجتماعی زندگی گزاریں، وحدت و اجتماعیت کو اپنا نصب العین بنائیں اور اس وحدت و اجتماعیت کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ،کسی صاحب علم و بابصیرت شخص کو اپنا مقتدیٰ اور امیر بنا لیں جو ارباب حل و عقد کے مشورے سے زندگی کے تمام میدانوں میں مسلمانوں کے لیے منصوبہ سازی کرے اور لائحہ عمل متعین کرے اور کسی امیر پر متفق نہ ہونے تک اصحاب فہم و فراست ارباب اخلاص و تقویٰ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو اجتماعی زندگی اور ملی مسائل میں امت مسلمہ کی رہنمائی کرے اور بدلتے ہوئے حالات میں لائحہ عمل طے کرتی رہے ،اجتماعیت اور اعتصام بحبل اللہ اسلام میں مطلوب ہے ،جماعت اور اجتماعیت کے بغیر مسلمانوں کا زندگی گزارنا اپنے دینی ملی اور قومی تشخص کو خطرے میں ڈالنا ہے، قرآن نے کہا ہے،، واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ،(آل عمران)اللہ کی رسی کو یعنی اس کے دین کو مضبوطی سے پکڑوا اور تفریق کا شکار…

Read more

تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی

 اسلام ایک معتدل اور متوازن شریعت کا نام ہے ، جو اپنے ماننے والوں کو ہر دور ، ہر خطے ، اور ہر حالت میں قابل عمل اور متوازن شریعت عطا کرتا ہے ،  اسی اصول کے تحت اسلامی فقہ نے بھی مختلف مکاتب فکر اور اجتہادی آراء کو جنم دیا ہے ، جو در حقیقت دین کی وسعت ، لچک اور امت پر اللہ کی رحمت کا مظہر ہے ۔ حالات کی پیچیدگی اور نئے مسائل نے مزید یہ تقاضا پیدا کردیا ہے کہ بعض اوقات مختلف مذاہب کی آراء سے استفادہ کیا جائے تاکہ امت کو مشکلات سے نکالا جا سکے اور ان کے لیے آسانی اور سہولت فراہم کی جائے ، اسی مقصد کے پیشِ نظر بعض دفعہ مخصوص شرائط کے ساتھ مسلک غیر فتویٰ دینے کی اجازت دی جاتی ہے ، مسلک غیر پر فتویٰ دینے کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ‘تلفیق بین المذاھب” کی ان صورتوں سے اجتناب کیا جائے جو درست نہیں ہیں ، اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ ” تتبع رخص” سے کام نہ لیا گیا ہو ، زیر نظر مقالہ انہیں دونوں اصطلاح کی وضاحت پر مشتمل ہے ۔   *تلفیق کی لغوی اور اصطلاحی حقیقت کیا ہے ؟ اور اصولیین تلفیق کا استعمال کس معنی کے لئے کرتے ہیں ؟* تلفیق کی لغوی معنی: تلفیق یہ عربی زبان کا لفظ ہے ، باب تفعیل کا مصدر ہے، جو باب ضرب "لفق” سے مشتق ہے،  معنی ہے "ضم شقۃ إلی أخری”ایک سرے کو دوسرے سرے سے ملانا،  کہا جاتا ہے: "لفق الثوب” جس کا معنی ہے ایک کپڑے کو دوسرے کے ساتھ ملا کر سی دینا”  القاموس الوحید: ( ص: 1486 )  (لغۃ الفقہاء ۱۴۴)   تلفیق کی اصطلاحی معنی (فقہی اصطلاح میں) "تلفیق بین المذاھب ” یہ ایک فقہی اصطلاح ہے ، اور فقہی اصطلاح کی رو سے تلفیق بین المذاھب کا مطلب ہوتا ہے کہ مختلف فقہی مذاہب کے  مختلف اقوال کی روشنی میں ایک ایسی نئی صورت کو  اختیار  کرنا جو کسی مذہب کے مطابق نہ ہو ، یعنی ایک…

Read more

بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی

"مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن کو ہم چھوٹا جان کر بسا اوقات ان سے صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع ابلاغ ان کو سنوارنے سے زیادہ بگاڑتے ہیں… اور پھر ہم حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ آج کل کے نوجوانوں کو ہوا کیا ہے؟ وہ اتنے بگڑ کیسے گئے؟ اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹ کیوں گئے؟”….. بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصولڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی اسلامی تعلیمات میں اولاد کی تربیت کے سلسلے میں اتنی رہ نمائیاں ہیں کہ ان سے پورا فنِ تربیت ترتیب پاسکتا ہے، ہمارے دینی علمی ورثہ میں اس موضوع پر گفتگو ’والدین پر اولاد کے حقوق‘ کے عنوان کے تحت کی جاتی ہے، خود یہ عنوان اپنے اندر پورا پیغام رکھتا ہے، یہ بتاتا ہے کہ تربیت بلا منصوبہ اور بے ترتیب انجام دیے جانے والے چند افعال سے عبارت نہیں ہے، بلکہ یہ در حقیقت اولاد کے حقوق کی ادائیگی ہے، جن کا حق داروں تک مکمل طور پر پہنچنا لازمی ہے، ورنہ حقوق کی ادائیگی کا مکلف شخص گناہ گار ہوگا۔ والدین کی بڑی تعداد ان حقوق سے مکمل غافل ہے، بہت سے والدین کو تو ان حقوق کی بابت کچھ خبر ہی نہیں ہوتی، اکثر علما بھی ان حقوق کی بابت یاددہانی نہیں کراتے، وہ کچھ اور امور ومسائل کو زیادہ اہم جان کر ان کی ہی بارے میں گفتگو کرتے ہیں، حالاں کہ اولاد کے ان حقوق کی ادائیگی پر ہی قوم وملت کا مستقبل منحصر ہے، اس لیے کہ مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن سے ہم بسا اوقات چھوٹا جان کر صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع…

Read more

بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کے حربے

بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کے حربے محمد رضی الاسلام ندوی میرے سامنے تقسیم وراثت کا ایک ایسا کیس آیا ہے جس سے میں حیرت زدہ ہوں کہ لوگ اپنی بہنوں کو وراثت سے محروم کرکے جہنم کمانے کے لیے کتنی کوشش کرتے ہیں – مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کا ایمان ہے کہ ایک نہ ایک دن مرنا ہے ، پھر دوسری زندگی ملے گی تو دنیا کے تمام کاموں کا حساب دینا ہے – اگر دنیا میں کسی کا حق مارا ہوگا تو روزِ قیامت حق مارنے والے کے نیک اعمال اس مظلوم کو دے دیے جائیں گے اور حق مارنے والے کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا – یہ عقیدہ رکھنے کے باوجود لوگ ایسے زندگی گزارتے ہیں کہ لگتا ہے ، نہ انھیں مرنا ہے اور نہ کبھی ان کے کاموں کا حساب و کتاب لیا جائے گا – ایک صاحب کا انتقال ہوا ، جن کے تین لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں – وہ صاحبِ حیثیت اور بڑی پراپرٹی کے مالک تھے – ان کی کل پراپرٹی کی مالیت کا اندازہ سو کروڑ کا ہے – اتنا زیادہ مال دیکھ کر لڑکوں کے دل میں فتور آگیا – انھوں نے اپنی بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے کا پلان بنایا – بہنوں سے کہا کہ والد صاحب کی پراپرٹی کو اولاد کے نام منتقل کرنے کے لیے رجسٹرار کے سامنے حاضر ہونا ہے – دو بہنوں نے رجسٹرار کے پاس جانے سے انکار کیا ، چار بہنیں بہکاوے میں آگئیں – انھوں نے رجسٹرار کے پاس جاکر پہلے سے تیار شدہ دستاویز پر دستخط کردیا – بعد میں پتہ چلا کہ جس دستاویز پر انھوں نے دستخط کیے تھے اس پر لکھا ہوا تھا کہ ہم بہنیں بھائیوں کے لیے اپنے حق سے دست بردار ہوتی ہیں – باقی دو بہنوں نے عدالت میں اپنے حق کے لیے کیس دائر کردیا تب بھائیوں نے کہا کہ والد صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنی کل پراپرٹی اپنے بیٹوں کو ہبہ کردی تھی – باپ نے اگر ایسا…

Read more