انحرافات غامدی جاوید احمد غامدی کی مغالطہ انگیزیاں
غلام نبی کشافی آنچار صورہ سرینگر
___________________آج کا جو مضمون آپ پڑھنے جا رہے ہیں ، یہ جاوید احمد غامدی کے فتنہ انکار حدیث پھیلانے کے حوالے سے ہے ، کیونکہ وہ انکار حدیث کے حوالے سے ایسی زبان استعمال کرتے ہیں ، جس کو ہر کوئی سمجھ نہیں سکتا ، اور جس کی وجہ سے ہمارے سادہ لوح نوجوان ان کے دام فریب اور شاطرانہ توضیح و تشریح سے متاثر ہوکر اپنے دین و ایمان کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔جاوید احمد غامدی سے خالی اختلاف رائے کرکے ان کے باطل افکار و نظریات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ وہ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی وساطت سے میٹھا زہر پلا رہے ہیں ۔ اس لئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ان کے مکر و فریب سے دور رہیں ۔ __________________
میں پچھلے کچھ دنوں سے نماز قصر کے بارے میں مطالعہ کر رہا تھا ، اور اس دوران میں نے نماز قصر کے مسئلہ کے بارے میں تین قسطوں پر مشتمل ایک مضمون بھی لکھ دیا تھا ، جسے سوشل میڈیا پر ڈالا گیا تھا ، اور اس دوران میں نے جاوید احمد غامدی کی شر انگیز کتاب ” میزان ” سے بھی نماز قصر کا باب پڑھ لیا تھا ۔ قرآن میں صرف ” صلاۃ خوف ” کا ذکر آیا ہے، جس کا تعلق حالت جنگ سے ہے ، جبکہ قرآن میں ” صلاۃ قصر ” کا حکم نہیں آیا ہے ۔ جیساکہ ” صلاۃ خوف ” کا ذکر سورہ نساء آیت101 تا 103 میں موجود ہے ، اور ان میں سے پہلی آیت یہ ہے ۔وَاِذَا ضَرَبْتُـمْ فِى الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلَاةِۖ اِنْ خِفْتُـمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا ۚ اِنَّ الْكَافِـرِيْنَ كَانُـوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا. ( النساء :101)” اور اگر (جنگ کے لئے) تم سفر میں نکلو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اگر نماز (کی تعداد) میں سے کچھ کم کر دو ، بلا شبہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہے (وہ جب موقع پائیں گے تم پر حملہ کر دیں گے) ” دوران سفر نماز میں قصر کرنے کا حکم قرآن میں موجود نہیں ہے بلکہ یہ سنت سے ثابت ہے اور اس کے بارے میں متعدد احادیث صحیحہ مروی ہیں ۔
جاوید احمد غامدی کی رائے
لیکن جاوید احمد غامدی کی مغالطہ انگیزی دیکھ لیجئے ، وہ کیا تحریر فرماتے ہیں ؟” روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے عام سفروں کی پریشانی ، افرا تفری اور آپا دھاپی کو بھی اس پر قیاس فرمایا اور ان میں بالعموم قصر نماز ہی پڑھی ہے ۔
اسی طرح قافلے کو رکنے کی زحمت سے بچانے کے لئے نفل نمازیں بھی سواری پر بیٹھے ہوئے پڑھ لی ہیں "آگے چند سطروں کے بعد مزید لکھتے ہیں ۔” نماز میں تخفیف کی اس اجازت سے رسول 9 صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اس طرح کے سفروں میں ظہرو عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں ” ( میزان : ص 311/ ایڈیشن 2013ء لاہور)
چونکہ یہ بات واضح ہے کہ نماز خوف کا حکم قرآن میں موجود ہے ، جبکہ سفر میں نماز میں قصر کرنے کا حکم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آیا ہے ، جو کہ آپ کی تشریعی حیثیت کو ثابت کرتا ہے ، لیکن جاوید احمد غامدی کی شر انگیزی دیکھیے کہ مجال ہے کہ وہ اس نماز قصر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مان لیں ، بلکہ اس کے لئے انہوں نے مذکورہ بالا اقتباسات میں دو الفاظ ” قیاس ” اور ” استنباط ” استعمال کئے ، گویا نعوذ باللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو دین میں محض ایک مجتہد اور فقیہ کی حیثیت حاصل ہے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ آپ خود کوئی شرعی حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں ، لیکن آپ اجتہاد کرکے اپنی رائے و تحقیق پیش کرسکتے ہیں ، تاکہ جاوید احمد غامدی جیسے منکرین حدیث کو یہ موقع مل جائے کہ یہ آپ کا قیاس اور استنباط ہے ، اس لئے اس میں احتمال خطا کا بھی امکان ہے ۔ ( العیاذ باللہ)
اسی لئے جاوید احمد غامدی جیسے منکرین حدیث اسی طرح کی مغالطہ انگیز بیان بازیوں سے احادیث کی اہمیت گھٹا کر ان کو قیاس و استنباط کے خانے میں ڈال دیتے ہیں ، اور یہی ان کے بنیادی مذموم مقاصد ہوتے ہیں ۔
نماز خوف اور نماز قصر میں کیا فرق ہے ؟
واضح رہے نماز خوف اور نماز قصر میں فرق کیا ہے ؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے ۔ جیساکہ قرآن میں نماز خوف کا ذکر اس آیت میں آیا ہے ۔وَاِذَا كُنْتَ فِيْـهِـمْ فَاَقَمْتَ لَـهُـمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَـآئِفَةٌ مِّنْـهُـمْ مَّعَكَ وَلْيَاْخُذُوٓا اَسْلِحَتَـهُـمْۖ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْيَكُـوْنُـوْا مِنْ وَّرَآئِكُمْۖ وَلْتَاْتِ طَـآئِفَةٌ اُخْرٰى لَمْ يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ وَلْيَاْخُذُوْا حِذْرَهُـمْ وَاَسْلِحَتَـهُـمْ ۗ وَدَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَاَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيْلُوْنَ عَلَيْكُمْ مَّيْلَـةً وَّاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُـمْ مَّرْضٰٓى اَنْ تَضَعُـوٓا اَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوْا حِذْرَكُمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ اَعَدَّ لِلْكَافِـرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا ۔ ( النساء : 102) اور (اے نبی مکرم !) جب آپ ان ( صحابہ کے ساتھ حالت جنگ) میں ہوں تو ان کے لئے نماز (کی جماعت) قائم کریں پس ان میں سے ایک جماعت کو (پہلے) آپ کے ساتھ (اقتداءً) کھڑا ہونا چاہئے اور انہیں اپنے ہتھیار بھی لئے رہنا چاہئیں، پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو (ہٹ کر) تم لوگوں کے پیچھے ہو جائیں اور (اب) دوسری جماعت کو جنہوں نے (ابھی) نماز نہیں پڑھی آجانا چاہیے پھر وہ آپ کے ساتھ (مقتدی بن کر) نماز پڑھیں اور چاہئے کہ وہ (بھی بدستور) اپنے اسبابِ حفاظت اور اپنے ہتھیار لئے رہیں، کافر چاہتے ہیں کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر دفعۃً حملہ کر دیں، اور تم پر کچھ مضائقہ نہیں کہ اگر تمہیں بارش کی وجہ سے کوئی تکلیف ہو یا بیمار ہو تو اپنے ہتھیار (اُتار کر) رکھ دو، اوراپنا سامانِ حفاظت لئے رہو۔ بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ذلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ نماز خوف نماز قصر سے بالکل مختلف ہے ، اور احادیث میں اس میں مختلف طریقے بیان ہوئے ہیں ، جن میں دو طریقے روایات کی روشنی میں اس طرح ہیں ۔عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ زَهْدَمٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِطَبَرِسْتَانَ، فَقَامَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا، فَصَلَّى بِهَؤُلَاءِ رَكْعَةً وَبِهَؤُلَاءِ رَكْعَةً وَلَمْ يَقْضُوا.(سنن ابوداؤد : كتاب صلاة السفر : باب من قال يصلي بكل طائفة ركعة ولا يقضون : رقم الحدیث1246/ صحیح)ثعلبہ بن زہدم کہتے ہیں کہ ہم لوگ سعید بن عاص کے ساتھ طبرستان میں تھے، وہ کھڑے ہوئے اور پوچھا: تم میں کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف ادا کی ہے؟ تو سیدنا حذیفہ نے کہا: میں نے ، پھر حذیفہ نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی، اور دوسرے کو ایک رکعت اور ان لوگوں نے (دوسری رکعت کی) قضاء نہیں کی۔ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْقَوْمِ فِي الْخَوْفِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى بِالْقَوْمِ الْآخَرِينَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا.( سنن النسائی : کتاب صلاۃ الخوف : رقم الحدیث 1551 )سیدنا ابوبکرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ خوف میں ایک جماعت کے ساتھ دو رکعت پڑھائیں، پھر سلام پھیرا۔ پھر دوسری جماعت کے ساتھ دو رکعت پڑھائیں اور سلام پھیرا۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ نے ( مجموعی طور پر خود ) چار رکعتیں ادا کیں۔امام بخاری نے بھی سیدنا جابر بن عبداللہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخری حصہ میں اس کا ذکر تعلیقاً کیا ہے ۔( دیکھئے : كتاب المغازي : باب غزوة ذات الرقاع: رقم الحديث 4136)اسی طرح نماز خوف کے چند اور طریقے بھی کتب احادیث میں بیان ہوئے ہیں ، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جنگی حالت کا پوری طرح معینہ کرکے نماز خوف پڑھانے کا اہتمام کرتے تھے ، تاکہ دشمن کو حملہ کرنے کا موقع نہ مل جائے ۔لیکن نماز قصر نماز خوف سے بالکل ایک مختلف ہے ، اور اس کا تعلق خوف و خطر سے نہیں ، بلکہ صرف مسافت سفر سے ہے ، اس لئے دوران سفر نماز میں رعایت قصر کی صورت میں صرف سنت سے ثابت ہے ، جس کا تفصیلی تذکرہ کتب احادیث میں موجود ہے ۔ اور اس سنت کا تعلق حکم نبوی سے ہے نہ کہ یہ کوئی قیاس اور استنباط ہے ۔
عام سفروں میں نماز قصر کرنا کیسا ہے؟
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عام سفروں میں بھی نماز میں قصر کرنا سنت ہے، خواہ سفر میں کسی قسم کا خوف یا مشقت کا معاملہ ہو یا نہ ہو۔ اور قیام و طعام کی ہر کی طرح سہولیات بھی دستیاب کیوں نہ ہوں ، تو اس سب کے باوجود نماز میں قصر کرنا جائز اور سنت سے ثابت ہے ۔ کیونکہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ہمیشہ قصر کیا کرتے تھے ، اسے کبھی ترک نہیں کرتے تھے ۔ جیساکہ حدیث میں آیا ہے ۔عَنْ ابْن عُمَرَ يَقُولُ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ لَا يَزِيدُ فِي السَّفَرِ عَلَى رَكْعَتَيْنِ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَذَلِكَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ .(صحيح البخاري: کِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ : بَابُ مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ دُبُرَ الصَّلاَةِ وَقَبْلَهَا : رقم الحدیث 1102)سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں، آپ دوران سفر دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اور (اسی طرح) سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان بھی ( دوران سفر دو رکعات سے زیادہ نماز ادا نہیں کرتے تھے) ۔ اللہ ان سب سے راضی ہوجائے ۔اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ دو رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ، اور سیدنا ابو بکر صدیق ، سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا عثمان بن عفان بھی ہمیشہ دوران سفر میں دو رکعات ہی پڑھتے تھے ۔ البتہ فجر اور مغرب کی نماز پر قصر کا اطلاق نہیں ہوگا ، کیونکہ یہ حکم بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے فرمان سے ثابت ہے ۔ اس لئے قصر کرنے کا حکم صرف ظہر ، عصر اور عشاء کی نمازوں میں ہیں ، اور اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دین و شریعت میں کیا مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔لیکن اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملے ہوئے شرعی احکام قیاس و استنباط پر مبنی قرار دئے جائیں ، تو پھر کیا نماز پنجگانہ ، تعداد رکعات ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج وغیرہ کے احکام ، جن کا تعلق و انحصار صرف احادیث صحیحہ پر ہی ہے ، سب کو قیاس و استنباط ہی قرار دئے جائے گا ؟ جن کے قیاس و استنباط کرنے کے لئے کوئی دلیل یا ثبوت سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔
لیکن افسوس کہ اس بار غامدی صاحب بہت دور کی کوڑی لے آئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ منکرینِ حدیث کا سب سے بڑا فکری انحراف یہی ہے کہ وہ وحیِ الٰہی کو صرف قرآن تک محدود سمجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ معانی و احکام کو انسانی کلام قرار دیتے ہیں ، اور اسے ایک مجتہد کی کوشش کی طرح قیاس و استنباط اور اجتہاد و استشہاد سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں دیتے ، یہاں تک کہ جاوید احمد غامدی نے اپنی ویڈیو میں دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین میں ایک تنکے کے برابر اضافہ کرنے کا اختیار حاصل نہ تھا ۔اس طرح اس گمراہ کن رویے سے دین کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں، کیونکہ قرآن خود بارہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، آپ کے فیصلوں کی پیروی اور آپ کی سنت کو وحی کی شرح قرار دیتا ہے۔
جب حدیث کو حجت نہ مانا جائے تو پھر نماز، زکاۃ، حج، نکاح، طلاق، معاملات اور حدود وغیرہ کسی بھی باب میں دین کا عملی ڈھانچہ باقی نہیں رہتا۔ منکرینِ حدیث کا یہ طرزِ فکر دراصل اپنی خواہشات کو دین پر ترجیح دینے کا نام ہے ، وہ قرآن کے روشن احکام کو اپنے ذہنی سانچوں میں ڈھالنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے احادیث صحیحہ کی حجیت کو راستے سے ہٹاتے ہیں۔ ایسے رجحانات سے ایمان کمزور، شریعت بے بنیاد اور امت انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ اہلِ علم کی ذمہ داری ہے کہ قرآن وحدیث کی مشترکہ حجیت کو واضح کریں اور لوگوں کو یاد دلائیں کہ نبی آخرالزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے، اور آپ کے ارشادات کو چھوڑنا دین کی روشنی سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ ____________________