HIRA ONLINE / حرا آن لائن
*_بابری مسجد کے ساتھ نا انصافی_*

*_بابری مسجد کے ساتھ نا انصافی_* *ممکن ہے کہ بابری مسجد تاریخ کی سب سے مظلوم مسجد قرار دی جائے گی، اپنوں کی بے اعتنائی اور غیروں کی ستم گری پر نشان عبرت سمجھی جائے گی، اسے ہمیشہ یاد کیا جائے گا اور امت کے سوتے ضمیروں پر چوٹ لگائی جائے گی، اس کے ذریعہ مسلمانوں کی بے بصیرتی اور نادانی کے ساتھ اکثریت کا اقلیت پر ظلم اور جمہوریت کی شکل میں بیٹھے بھیڑیوں کی تصویریں پیش کی جائیں گی، اسے مٹادیا گیا، مسمار کردیا گیا، رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں اس کی اینٹ اکھاڑ لے گئے، بھگوا رنگ کے علمبرداروں نے مقدس مقام کا بھی خیال نہ کیا، اس کی تقدیس کو نوچ لیا، اس کی تعظیم و حرمت پر جھپٹ پڑے، اور یکا یک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جرم کر بیٹھے، دنیا میں سینکڑوں ڈکٹیٹر ہوئے، جنون کے مارے اور طاقت و قوت کے نشہ میں چور بادشاہ بھی ہوئے؛ لیکن ان سے عبادت گاہوں کا تقدس پامال نہ کیا جاتا تھا، اگر تاریخ سے بعض مثالیں ہٹادی جائیں یا پھر سیاسی مفاد کو پرے کردیا جائے، تو امن و صلح اور انسانیت و جمہوریت کے نام پر کبھی بھی خانہ خدا کو یا کسی بھی صنم خانے کو نہ چھیڑا گیا؛ مگر ۶/دسمبر ۱۹۹۲ء میں ہندوستانی معاشرت کا وہ کالا دن آیا جب اپنوں نے ہی پیٹھ پر چھرا مار دیا، ایک دیومالائی کیریکٹر کے نام پر حقیقت کو مٹا بیٹھے، حکومت خاموش رہی، سسٹم اندھا بنا رہا__ فوج اور پولس، عدالت اور سارا نظام راکد رہا؛ اور گیروا رنگ کے باولے، مجنون قسم کے افراد اور انسانیت کیلئے باعث شرمندہ انسان نما جانوروں نے بیت الہی کو روند ڈالا_ کدالیں چل رہی تھیں، پھاوڑے مارے جارہے تھے، بھگوا جھنڈا لہرایا جارہا تھا، مسجد کا اوپری حصہ اور نچلا حصہ بھی زخم پر زخم برداشت کئے جارہا تھا؛ لیکن ساری دنیا تماشائی بنی دیکھتی رہی، بلکہ لطف لیتی رہی، چٹخارے مارتی رہی اور خود کو سیکولزم کے پردہ میں چھپاتی رہی۔* *اس کی آگ نے پورے ہندوستان…

Read more

وارث نہیں ، غاصب از : مولانا مفتی محمد اعظم ندوی

وارث نہیں، غاصبمولانا مفتی محمد اعظم ندوی زندگی کے ہر موڑ پر انسان کا امتحان ہوتا ہے، مگر وراثت کا امتحان سب سے زیادہ رسوا کن اور عبرت آموز ہے، یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں خون کی حرارت، رشتوں کی حرمت اور گھر کی بنیادیں، کسی چیز کی اہمیت باقی نہیں رہتی، کچھ وارث ایسے ہوتے ہیں جن کے ضمیر پر مفاد کا پردہ چڑھ جاتا ہے، وہ باپ کی نصیحتیں، ماں کی آنکھوں کی نمی، اور گھر کے در ودیوار میں سمائی ہوئی بھائیوں اور بہنوں کی محبت بھری آوازیں سب بھول جاتے ہیں، ان کے سامنے صرف ایک ہدف رہ جاتا ہے: قبضہ، اقبال نے کہا غلط کہا: بجلیاں جس میں ہوں آسُودہ، وہ خرمن تم ہوبیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو یہ لوگ جائیداد پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے جنگلی درندے شکار پر، حیلہ سازی کو چالاکی، ظلم کو حق، اور دھونس کو جیت سمجھ بیٹھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ قانون کی راہیں لمبی ہیں، عدالتوں کے چکر تھکا دیتے ہیں، اور شریف لوگ جھگڑا پسند نہیں کرتے، اسی کمزوری کو اپنا ہتھیار بنا کر وہ بہنوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، کمزور بھائیوں کو ڈراتے ہیں، اور بزرگ والدہ کے آنسوؤں کو نظرانداز کرتے ہیں، ان کا ضمیر مردہ ہو چکا ہوتا ہے، اور حرص وہوس کے پانی میں تیرتے ہوئے، اپنے جلتے جھلستے ہوئے اعمال کے اثرات سے بے خبر رہتے ہیں، مگر یہ وارث نہیں، زمین کے غلام ہیں، ان کے نزدیک قبر کی تنگی کا کوئی تصور نہیں، آخرت کی بازپرس کا کوئی احساس نہیں، اور اس دن کی کوئی فکر نہیں جب منصف حقیقی کے سامنے ایک ایک انچ کا حساب دینا ہوگا، وہ بھول جاتے ہیں کہ جس زمین کے لیے وہ بہنوں کو رلاتے ہیں، اسی زمین میں انہیں بھی دفن ہونا ہے، بغیر کسی کاغذ، بغیر کسی ثبوت اور معافی نامے کے، صرف ایک سفید کفن میں۔ خاندانوں کی سب سے بڑی بربادی جائیداد کے انہی جھگڑوں سے ہوتی ہے، باپ کی سجائی ہوئی دنیا، ماں کی آراستہ…

Read more

اسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میں

اسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میں ✍️ ریحان بیگ ندوی (سابق سکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) روایتی طور پر یہ تصور کیا جاتا رہا ہے کہ اسلامی قانون کا مغربی قانون پر اثر کم رہا ہے، بالمقابل طبیعیات، الہیات اور آرٹ وغیرہ کے، لیکن یورپی قانونی تاریخ میں اسلامی قانون کے اثرات دو طریقوں سے نمایاں طور پر ظاہر ہوئے ہیں: ایک وہ علاقے جہاں اسلامی حکمرانی تھی، اور دوسرا اقتصادی قانون پر معاشی ضرورتوں کے تحت اثرات۔ اس کے علاوہ، یہ بحث بھی جاری ہے کہ آیا مغربی قانون نے اسلامی نظریات کو اپنایا تھا یا نہیں۔ بعض محققین کا ماننا ہے کہ 12/ویں صدی کے دوسرے نصف میں کامن لا common law اور اسلامی قانون میں کچھ مشابہتیں پیدا ہوئیں۔ جان مکدسی Jhon Makdisi ( پروفیسر آف لا ایمریٹس: سینٹ تھامس یونیورسٹی اسکول آف لاء) نے اپنی کتاب Islamic Property Law: Cases And Materials For Comparative Analysis With The Common Law میں واضح کیا ہے کہ انگلش کامن لا اسلامی قانون سے متاثر ہو کر تشکیل پایا ہے۔ اگرچہ اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے، لیکن نارمن سسلی اور انگلینڈ کے درمیان روابط اس کی وضاحت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی وقف کا اثر انگلش ٹرسٹ پر بھی دیکھا گیا ہے، جو ابتدا میں گرچہ عملی ضرورت کے تحت متعارف ہوا، مگر بعد میں اسلامی قانونِ اوقاف کے اصولوں سے متاثر ہوا۔اس کے علاوہ فقہائے اسلام نے غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات، جنگ و امن کے اصول، اور اہلِ ذمہ و غیر ملکیوں کے معاملات پر گہری تحقیق کی ہے۔ اس موضوع پر نمایاں کتب میں سیر الاوزاعی (157 ہجری)، کتاب الجہاد از عبداللہ بن مبارک (187 ہجری)، السیر الکبیر اور السیر الصغیر از امام محمد بن حسن الشیبانی (189 ہجری)، سیر الواقدی (207 ہجری)، اور رسالہ الجہاد از ابن تیمیہ (661 ہجری) شامل ہیں۔ یہ کتب اور دیگر کتبِ سیر و جہاد اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اسلامی فقہ نے بین الاقوامی قانون کو ایک مستقل…

Read more

اسلامی اعتدال کی شاہ راہ پر چل کر ہی مرعوبیت کا علاج ممکن ہے

مدثر احمد قاسمی اسلام نے انسان کو زندگی گزارنے کے جو اصول عطا کیے ہیں وہ نہایت عملی، جامع اور متوازن ہیں۔ انہی اصولوں پر چل کر انسان سکون، خوشی اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔ لیکن جب کبھی ان رہنمائیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو زندگی میں بے ترتیبی، بے سکونی اور پریشانیاں جنم لینے لگتی ہیں۔ اسلام کے اصول چونکہ اعتدال، توازن اور حقیقت پسندی پر مبنی ہیں، اس لیے ان پر قائم رہنے والی امت کو قرآن مجید نے "اُمّتِ وَسَط” قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اسی طرح ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا۔” (البقرہ: 143) "وسط” کا مطلب ہے درمیانی راستہ اختیار کرنے والی امت، جو نہ کسی انتہا پسندی میں مبتلا ہو اور نہ ہی غفلت و لاپرواہی کا شکار ہو۔ اس امت کا توازن اس بات میں ہے کہ اس کے نظریات اور اعمال میں افراط و تفریط نہیں بلکہ اعتدال اور توازن ہے؛ اسی وجہ سے وہ دنیا کی دوسری قوموں کے درمیان ایک نمونہ اور معیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا اسلام کے ماننے والے اگر اپنے دین پر صحیح طور پر عمل کریں تو وہ اعتدال و توازن کی عملی تصویر بنتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اصل کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھے، حدودِ الٰہی کی پاسداری کرے اور ہر موقع پر ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جس سے معاشرے میں خیر اور بھلائی کے اسباب پیدا ہوں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اعتدال کے بجائے بے اعتدالی کو اپنی پہچان بنالیا ہے۔ گویا جس امت کو دنیا کے لیے توازن اور سکون کا سرچشمہ ہونا چاہیے تھا، وہ خود بے ترتیبی اور افراط و تفریط میں الجھ کر دوسروں کے لیے باعثِ عبرت بن گئی۔ اس کی ایک واضح مثال فضول خرچی ہے جس سے اسلام نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، کیونکہ یہ عمل معاشی بدحالی اور اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج…

Read more

کیا جلسوں کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟؟ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی (مصنف و کالم نگار)

یوں تو پوری سال دینی جلسوں اور پروگراموں کاسلسلہ رہتا ہے ۔ البتہ رجب اور شعبان کا مہینہ آتے ہی جلسوں کا سیلاب سا امڈ پڑتا ہے ۔ ہر چھوٹا بڑا مدرسہ اور مکتب اہنے یہاں جلسہ کرانے کو فخر سمجھتا ہے ۔ پیشہ ور مقرروں کو بلایا جاتا ہے۔ جن کا آمد و رفت کا خرچ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض مقرر تو باقاعدہ طے کر لیتے ہیں کہ اتنا روپیہ چاہیے ۔ دینی جلسوں میں بلانے کے لیے روپیہ لینا چاہیے یا نہیں یہ ایک الگ اور قابل غور مسئلہ ہے؟ ہاں! ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے خطیب عموماً اپنی خطابت کی زور آزمائی دکھانے اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا سماج و معاشرے کی اصلاح و تربیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر حساس اور باشعور شخص کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مروجہ دین کے نام پر منعقد ہونے والے جلسوں کے زمینی سطح پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ جلسوں کا معاشرتی اصلاح اور دین کی درست تعبیر و تشریح میں کیا کردار ہے؟ عہد حاضر کا یہ ایک اہم مسئلہ ہے ۔ اس پر سنجیدہ تدبر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے سماج میں دین کی تبلیغ و اشاعت کے جو ذرائع اور وسائل ہیں ان میں جلسہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں بہت زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے ۔ جلسہ گاہ کو اتنا خوبصورت اور دلکش بنانے کی سعی کی جاتی ہے کہ اچھی خاصی رقم تو پنڈال کو آراستہ کرنے میں لگ جاتی ہے ۔ اس کے بعد کھانے کا نظم ، مقررین کا آمد و رفت کا خرچہ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب چیزوں اور لوازمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کل جلسوں میں اسراف کیا جارہاہے اور ان کا نتیجہ صفر ہے ۔ عوام اپنی اصلاح اور دین سیکھنے کی غرض سے کم بلکہ یہ دیکھنے آتے ہیں کہ کس نے جوشیلی اور جذباتی بیان کیا ۔ وہیں مقررین بھی…

Read more