علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ: برصغیر کی حدیثی روایت کے معمار
منہج، امتیازات، آراء اور اثرات—ایک جائزہ
علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ (1875–1933ء) برصغیر کے ان نابغہ روزگار محدثین میں سے ہیں جنہوں نے چودہویں صدی ہجری میں علمِ حدیث کی روایت کو ایک نئی پختگی، تنوع اور تحریکی روح عطا کی۔ دیوبندی علمی روایت کے امین، ولی اللّہی فکر کے وارث، اور درس و تحقیق کے زندہ نمونے، آپ کا علمی مقام برصغیر کے محدثین میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ فيض الباري جیسی شاہکار تصنیف آپ کے حدیثی فکر کی سب سے نمایاں اور جامع صورتِ اظہار ہے جس نے جنوبی ایشیا میں شرحِ بخاری کی نئی سمت متعین کی۔
- منهجِ حدیثی: جامعیت، تحلیل اور استقرائی بصیرت
علامہ کشمیریؒ کا حدیثی منهج تین بنیادی خصوصیات پر قائم ہے:
(الف) جمع و توفیق کا اصول
آپ کے منهج کا بنیادی ستون یہ ہے کہ آپ متعارض روایات کو ناسخ و منسوخ یا ترجیح و تساقط کی طرف نہیں لے جاتے؛ بلکہ تمام طرق، مخارج اور قرائن کو جمع کرکے ان کی دلالتوں کا باہمی ربط واضح کرتے ہیں۔ فيض الباري میں بکھری ہوئی احادیث کو ایک فکری وحدت میں پرو دینا آپ کا امتیازی اسلوب ہے۔
(ب) مراتبِ حدیث کی دقیق تمییز
علامہ کشمیریؒ عللِ خفیہ، اوہامِ رواۃ، شذوذ اور متابعات و شواہد کے باب میں گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کے احکامِ حدیث ظاہری اسناد سے زیادہ قرائنِ داخلی و خارجی پر مبنی ہوتے ہیں، جو انہیں روایت کے باطن تک رسائی دیتے ہیں۔
(ج) فقه الحدیث اور مقاصد کی توضیح
آپ حدیث کی صحت و ضعف پر حکم لگانے کے بعد اسے فقہی، اصولی اور مقاصدی زاویے سے سمجھتے ہیں۔ فقہِ حنفی اور نقدِ حدیث کا حسین امتزاج ان کے منهج کو منفرد بناتا ہے۔ اس نقطہ نظر نے برصغیر میں “فقہ الحدیث” کو نئی زندگی دی۔ - منهجی امتیازات: حنفی روایت اور نقدِ حدیث کا امتزاج
علامہ کشمیریؒ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ فقہِ حنفی اور منهجِ محدثین دونوں کے سچے امین تھے۔ ان کی امتیازات میں چند باتیں بنیادی ہیں:
(الف) حنفی اصول کے ساتھ غیرمعمولی انفتاح
اگرچہ وہ فقہِ حنفی کے شناور تھے، مگر جب کسی مسئلے میں روایت کا تقاضا مختلف ہوتا تو وہ صاف الفاظ میں بیان کرتے کہ “فقہاء نے یہ مسلک اختیار کیا، لیکن حدیث کا ظاہری تقاضا یہ ہے…”۔
(ب) محدّثانہ تصلب کے ساتھ فقیہانہ عمق
وہ نہ صرف روایت کی سند و متن کا دقیق جائزہ لیتے، بلکہ اس کے فقہی نتائج، علتِ تشریع اور مقاصدِ شریعت سب کو سامنے رکھتے۔ یہی امتزاج انہیں برصغیر کے محدثین میں ممتاز بناتا ہے۔
(ج) مدرسۂ ہندیہ کی روایت کا ارتقاء
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد برصغیر میں حدیث و فقہ کے امتزاج کو منہجی سطح پر سب سے زیادہ جس شخصیت نے مضبوط کیا، وہ علامہ کشمیریؒ ہیں۔ ان کی تدریس و تصنیف نے دیوبندی مدارس کے حدیثی نظام کو نئے خطوط دیے۔
(د) دعویٰ النسخ کے مقابل احتیاط
وہ روایات میں ناسخ و منسوخ کے دعووں کو بہت محتاط نظر سے دیکھتے ہیں، اور اکثر اوقات “تعددِ واقعات” یا “تفاوتِ احوال” کو ترجیح دیتے ہیں۔
3.آراءِ حدیثیہ:
امام کشمیریؒ کا علمی مقام صرف توفیقی منهج تک محدود نہیں، بلکہ کئی اہم مسائل میں انہوں نے مستقل نقد اور اجتہادی بصیرت دکھائی۔ جیسے زیادۃ الثقة،رفع یدین کا مسئلہ،متعة الحج، فسخ الحج،
- علمی اثرات: برصغیر کے محدثین کا فکری معمار
امام کشمیریؒ کا اثر تین سطحوں پر نمایاں ہے:
(الف) درسی اثر
فيض الباري برصغیر اور عرب دنیا دونوں میں شرحِ بخاری کے معتبر ترین مراجع میں شمار ہوتی ہے۔
(ب) منهجی اثر
ان کے شاگرد—مولانا بدر عالم میرٹھی مولانا یوسف بنوری، اور دیگر شاگردوں—نے ان کی منهجی روح کو پورے برصغیر میں پھیلایا۔
(ج) علمی اثر
انہوں نے برصغیر کے حدیثی منہج کو ایک “متوازن ماڈل” دیا، جس میں اسنادی تمحیص فقہی استنباط
مقاصدی مطابقت اور مدرسۂ ہندیہ کے تاریخی ورثہ
—سب ایک جامع ساخت میں جمع ہیں۔
حاصل تحریر
علامہ انور شاہ کشمیریؒ برصغیر کی حدیثی تاریخ میں ایک ایسا سنگِ میل ہیں جنہوں نے روایتِ حدیث کو محض نقل و تحقیق نہیں رکھا بلکہ اسے فکری نظم، فقہی عمق، اور استقرائی بصیرت کے ساتھ زندہ کیا۔ ان کا منهج نہ صرف مدرسۂ دیوبند کا علمی سرمایہ ہے بلکہ عالمی سطح پر حدیثی فکر کا قابلِ قدر نمونہ بھی ہے۔ ان کی شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ برصغیر کی علمی روایت محض تقلید نہیں، بلکہ اجتہاد، تجدید اور تنقید کی زرخیز سرزمین ہے۔