ایک عزیز نے ایک سوال ان الفاظ میں کیا تھا ۔” میرے پاس کتابوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ، اور جب بھی وقت ملتا ہے ، تو میں مطالعہ کرتا ہوں ، چنانچہ دوران مطالعہ بہت سے ایسے الفاظ آتے ہیں ، جن کے معنی سمجھ میں نہیں آتے ہیں ، اور میں ان کے معنی جاننے کی کوشش بھی کرتا ہوں ، لیکن بعض الفاظ معانی و مفہوم کے اعتبار سے تحقیق طلب ہوتے ہیں ، جن میں ایک لفظ ” مستشرقین ” بھی ہے ، اس لئے میں آپ سے اس لفظ کے معانی جاننے کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ ضرور اپنے جواب سے ممنون فرمائیں گے ” نصیر احمد / ٹنگمرگ
غلام نبی کشافیآنچار صورہ سرینگر
لفظ ” مستشرقین”‘ کے معانی و موضوع سے میرا تعلق بچپن سے رہا ہے کہ جب میں نے بھی مطالعہ کرنا شروع کیا تھا ، تو دوران مطالعہ کئی بار ” مستشرقین ” کا لفظ میری نظر سے گزرتا تھا ، اور میں اس لفظ کے معانی سے نا آشنا تھا ، لیکن جب میرا مطالعہ بڑھتا گیا ، تو اس قسم کی درجنوں اصطلاحی نوعیت کے الفاظ کے معنی و مفہوم میرے ذہن میں ہمیشہ کے لئے منقش ہوگئے ۔ استشراق (Orientalism) اور مستشرق (Orientalist) دو اصطلاحیں ہیں ، اور یہ دونوں اصطلاحیں لفظی لحاظ سے بہت پرانی نہیں ہیں، انگریزی زبان وادب میں ان کا استعمال اپنے مخصوص اصطلاحی معنون میں اٹھارویں صدی عیسوی کے آواخر میں شروع ہوا تھا ۔
: لفظ استشراق
تحریک استشراق صدیوں سے مصروف عمل رہی ہے ، لیکن اس کا کوئی باضابطہ نام نہ تھا۔ اربری کہتا ہے کہ مستشرق کا لفظ پہلی بار 1630ء میں مشرقی یا یونانی کلیسا کے ایک پادری کے لئے استعمال ہوا ، لیکن انگلستان میں 1779ء کے لگ بھگ اور فرانس میں 1799ء کے قریب مستشرق کی اصطلاح رائج ہوئی اور پھر جلد ہی اس نے رواج پایا ۔ اس طرح سے عرف عام میں مستشرقین ، جو مستشرق کی جمع ہے ، اور عربی زبان کا لفظ ہے ، ان فرنگی اور مغربی دانشوروں کو کہا جاتا تھا ، جو علوم مشرقیہ حاصل کرتے تھے ۔ ( علماء الغرب لعلوم الشرق )
مستشرقین کون ہیں؟
اصل میں مستشرقین وہ یورپی اہلِ علم تھے ، جنہوں نے اسلام، قرآن، حدیث، عربی زبان اور مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ بنیادی طور پر اپنی تہذیبی، سیاسی اور مذہبی مقاصد کے تحت کیا۔ ان میں بعض خالص علمی جذبے سے آئے، مگر اکثریت کی تحقیق نوآبادیاتی حکمتِ عملی، عیسائی مشنری مقاصد اور اسلام کی فکری کمزوریاں تلاش کرنے کی خواہش کے زیرِ اثر تھی۔ انہوں نے عربی مخطوطات، تاریخی روایات اور کتب احادیث و سیرت کا مطالعہ کیا، مگر ان میں اکثر نے اپنے نظریاتی تعصبات کو علمی نتائج پر مسلط کیا۔ چنانچہ قرآن کو انسانی کلام ثابت کرنے، حدیث کی حجیت کو مشکوک بنانے، سیرتِ نبوی پر شکوک پیدا کرنے اور اسلامی تہذیب کو ثانوی قرار دینے کے لیے مختلف شبہات تراشے۔ ان کی بہت سی آراء داخلی علمی معیار، اصولِ حدیث اور اصولِ تاریخ کے سامنے ٹھہر نہیں پاتیں، لیکن چونکہ وہ مغربی جامعات کے اثرورسوخ کے حامل تھے، اس لیے ان کے پیدا کردہ شبہات جدید تعلیم یافتہ ذہنوں تک منتقل ہوئے۔ اس کے باوجود، ان کی بعض خدمات ، جیسے قدیم مخطوطات کا تحفظ، لغت و نحو کی تکنیکی خدمات، اور تاریخِ اسلام کی بعض جزوی تحقیقات ، استفادے کے قابل ہیں، بشرطیکہ انہیں اپنے اصل تعصبات اور فکری پس منظر کے ساتھ پڑھا جائے۔
اس طرح سے مستشرقین نے یورپ میں عربی زبان کی تعلیم اور دوسری مشرقی زبانوں کو سیکھنے کی طرف توجہ دینے کی کوشش کی تھی ، لیکن ان کی یہ ساری کوشش کسب علم کے لئے نہیں تھی ، بلکہ اس سارے کھیل میں کلیسا اور اس کی سر پرستی میں چلنے والے یورپی اداروں کی حکمت عملی یہ تھی کہ مسلمانوں کو عقیدہ کے لحاظ سے عیسائی بنا دیا جائے ، تاہم اگرچہ وہ اس مقصد میں کامیاب تو نہیں ہوئے ، مگر ان مستشرقین میں سے ایک قلیل تعداد نے اسلام بھی قبول کر لیا تھا ۔ لیکن قرآن وحدیث میں نقائص بیان کرنے ، اور اسلامی عقائد میں غلط افکار کو شامل کرنے اور اسلام کے بارے میں کئی طرح کی غلط فہمیاں پیدا کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے ۔اس لئے مسلم محققین نے بڑی ذمہ داری سے مستشرقین کے علمی کاموں کا تنقیدی جائزہ لیا ، ان کے شبہات کا مدلل علمی جوابات دئے ، اور اسلامی علوم کے اصل مصادر کی روشنی میں ایک صاف اور مضبوط علمی روایت کو آگے بڑھایا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین ایک بحث طلب موضوع ہے ، اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ، اور بہت سی کتابیں ” اسلام اور مستشرقین ” کے نام سے بھی لکھی گئی ہیں ، جو قابل مطالعہ ہیں ۔ ___________________